1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مذہب کے نام پر آواز دبائی نہیں بلکہ بند کر دی جاتی ہے‘

فرزانہ علی، پشاور
6 اکتوبر 2017

آنا پولیتکوفسکایا ایوارڈ حاصل کرنے والی خیبر پختونخوا کی باہمت خاتون سماجی کارکن گلالئی اسماعیل سے ڈوئچے ویلے کی نمائندہ فرزانہ علی کی گفتگو پر مبنی رپورٹ۔

https://p.dw.com/p/2lLoE
Gulalai Ismail
تصویر: Getty Images for Bill & Melinda Gates Foundation

(را ان وار)  نامی تنظیم سے آنا پولیتکو فسکایا ایوارڈ حاصل کرنے والی خیبر پختونخوا کی باہمت خاتون سماجی کارکن گلالئی اسماعیل سے جب میں نے پوچھا کہ ایک اور عالمی ایوارڈ حاصل کرنے پر انہیں کس قسم کا رد عمل دیکھنے کو مل رہا ہے؟  تو وہ ہنس کر بولیں ’’یار یہ لوگ بھی عجیب ہیں میرے ایوارڈ کی خبر کے نتیجے میں عجیب عجیب سے کومنٹس دے رہے ہیں، کوئی کہہ رہا ہے چلو اب یہ بھی ملالہ بننا چاہتی ہیں تو کسی کو یہ مغربی سازش لگتی ہے لیکن میں گزشتہ کئی سالوں سے یہ سب سننے کی عادی ہوچکی ہوں۔‘‘
صوابی کے رجعت پسند معاشرے میں 16سال کی عمر کی لڑکیوں پر ہونے والے مظالم اور ناانصافیوں کے خلاف آواز اُٹھانے والی گلا لائی اسماعیل آج بھی ان دنوں کو یاد کر تی ہیں جب ان کی والدہ کے پاس آنے والی گاؤں کی عورتوں کی باتیں اسے حیران کر دیتی تھیں کیونکہ ان عورتوں میں ایک بات مشترک تھی کہ ان کے نزدیک وہی عورت اچھی تھی جو سب سے زیادہ تشدد برداشت کرتی اور ظلم سہہ کر بھی خاموش رہتی تھی اور آواز اُٹھانے والی عورت کو بُرا سمجھا جاتا تھا ۔ لڑکیوں کی جلد ہی شادی کر دی جاتی تھی اور وہ اکثر اس پر غور کرتیں اور پھر اپنی سوچ کو ڈرائنگ یا شاعری میں ڈھالیتں۔ گلا لئی ڈی ڈبلیو کے لیے اپنے خصوصی انٹرویو میں کہا،’’میں نے طے کیا کہ میں نے خاموش نہیں رہنا ۔اور یُوں 2002ء میں آواز اُٹھانے کا ایک سفر شروع ہوا ’اوئیر گرلز‘ کے نام سے ’جسکا مقصد نوجوان لڑکیوں کے حقوق کی جنگ لڑنا اور ان کے اندر لیڈر شپ کی خصوصیات پیدا کرنا تھا ۔ گلا لئی کے بقول،’’ جس معاشرے میں بیٹی کی پیدائش پر سوگ اور بیٹے کی پیدائش پر خوشی سے فائرنگ کی جائے تو وہاں بیٹیوں کے حقوق کی بات کرنا مشکل تھا لیکن میں نے اس مشکل کو آسان بنایا اور اس کے لیے  خود بیٹیوں کے اندر یہ احساس جگانا شروع کیا  کہ وہ اپنی تقدیر بدل سکتی ہیں۔اور پھر ایک قافلہ بنتا گیا ۔اور تحریک شروع ہو گئی۔‘‘ گلالئی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انتہا پسند رویوں کے ساتھ رومانس کا یہ عالم ہے کہ ہر دوسرا شخص آپکو مذہب سکھاتا پھر رہا ہے اور معاملات اس قدر خطرناک صورت اختیار کر گئے ہیں کہ اب ہر بات کو مذہب کا رنگ دے کر آواز دبانے کی نہیں بلکہ بند کرنے کی کوشش کی جانے لگی ہے۔

گلالئی اِسماعیل، صنفی تفریق کے خاتمے کے لیے کوشاں

معاشرتی انتہا پسند رویوں کے خلاف آواز اُٹھانے والی گلالئی کی جدو جہد آج بھی انتہا پسندی کیخلاف ہی ہے۔ بس فرق ہے تو اتنا کہ اب معاشرہ روایتی انتہا پسندی کے ساتھ ساتھ مذہبی انتہا پسندی کے چنگل میں بھی پھنس چکا ہے ۔ جس پر گلالئی اسماعیل  نے خاموش رہنے سے انکار کر دیا ۔اور انتہا پسندوں کے خلاف ایک اور جدو جہد کا آغاز کیا ۔ گلالئی نے اپنے انٹرویو میں کہا،’’ میری جدو جہد کی مخالفت تو پہلی بھی ہوتی تھی اوروالدین کو لگتا تھا کہ میں اُن کی بیٹیوں کو گمراہ کر رہی ہوں لیکن اس بار معاملات زیادہ خطرناک صورت اختیار کر گئے کیونکہ اب ہر بات کو مذہب کا رنگ دے کر آواز دبانے کی نہیں بلکہ بند کرنے کی کوشش کی جانے لگی ہے ۔انسانی حقوق یا خواتین کے حقوق کی کوئی بھی بات کرو اسے اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کہہ کر آپ کو اسلام سے خارج کر دیا جاتا ہے ۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا ہمارے دوست احباب اور رشتہ داروں کو کہا گیا کہ یہ اور اسکا دائرہ اسلام سے خارج ہو چکے ہیں ۔ ہمارے گھر پر فائرنگ کے واقعات بھی ہوئے ۔ کچھ خواتین ہمارے اسٹاف کے پاس آئیں اور اپنا تعلق طالبان سے بتایا اور کہا کہ ہم جو کام کر رہے ہیں یہ بند کر دیں ورنہ انجام بُرا ہو گا۔ اسی طرح میرے والد کو ٹیلی فون کالز آئیں لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری۔‘‘

گلالئی کے مطابق انتہا پسند رویوں کے ساتھ رومانس کا یہ عالم ہے کہ ہر دوسرا شخص آپکو مذہب سکھاتا پھر رہا ہے جس کی تازہ ترین مثال مشال خان کا قتل ہے وہ بھی تو آوز اُٹھاتا تھا ۔ آج بھی المیہ یہی ہے کہ بولتے ہوئے لوگ اس معاشرے کو اچھے نہیں لگتے لیکن ان سب کے باوجود گلالئی نے اپنا راستہ نہیں بدلا۔ اُسکا خاموش ہونے سے انکارہی تھا کہ جسکو عالمی سطح پر بھی سراہا گیا اور2017ء کا آنا پولیتکوفسکایا ایوارڈ اُسے اور بھارت کی بہادر صحافی اور سماجی کارکن گوری لنکیش کو مشترکہ طور پر دینے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ گل لائی نے گوری لنکیش کے ساتھ ایوارڈ ملنے کو اس بات کا ثبوت قرار دیا کہ آزادی کے ستر سال گزرنے کے باوجود آج بھی دونوں ممالک ایک ہی جیسے مسائل ،انتہا پسندی اور ریاستی ڈر سے مسلسل نبرد آزما ہیں۔ گل لائی اسماعیل اس سے قبل بھی کئی عالمی ایوارڈز حاصل کر چکی ہیں ۔

گلالئی اسماعیل کے لیے ایک اور ایوارڈ

یہ ایوارڈز ان باہمت خواتین کو دیا جاتا ہے جو جنگ یا کانفلکٹ والے علاقوں میں کام کر رہی ہوں ۔ گلالئی اسماعیل  کو دیے گئے ایوارڈ  کی تقسیم کی تقریب مارچ میں لندن اور اپریل میں آسٹریلیا میں ہو گی۔ اب کی بار اس ایوارڈ کی تھیم ’’خاموش ہونے سے انکار تھی‘‘ جس کے تحت پاکستان سے گل لائی اسماعیل جبکہ بھارت سے گوری لنکش کو ایوارڈ دینے کا اعلان کیا گیا ۔ گلالئی اسماعیل  کے مطابق انہیں یہ ایوارڈ انتہا پسندی کے خلاف ان کی خدمات اور مسلسل کام کے حوالے سے دیا گیا ہے۔ اُن کے بقول،’’پاکستان اور بھارت سے ایک ہی وقت میں دو خواتین کے لیے اس ایوارڈ کی نامزدگی اس بات کا ثبوت ہے کہ آزادی کے ستر سال کے باوجود دونوں قومیں ایک ہی جیسے مسائل ،ایک ہی جیسی انتہا پسندی اورایک ہی جیسے ریاستی ڈر سے مسلسل نبرد آزما ہیں ۔ اس سے قبل ملالہ یوسفزئی اور افغانستان کی ملالہ جویا کو بھی یہ ایوارڈ مل چکا ہے ۔ گل لائی اسماعیل 16 سال کی عمر سے خیبرپختونخوا میں لڑکیوں کی تعلیم کے حق اور انتہا پسند رویوں کے خلاف مسلسل جدو جہد کر رہی ہیں جس کے اعتراف میں اب تک انہیں عالمی سطح پر کئی ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے جن میں ہیومنسٹ آف دی ایئر ایوارڈ 2014 ء، شیراک پیس پرائز 2016 ء اور اسی سال انہیں ملنے والا کامن ویلتھ یوتھ ایوارڈ فار ڈیموکریسی شامل ہیں۔