1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئس لینڈ کے وزیراعظم پاناما لیکس کا پہلا شکار

عدنان اسحاق5 اپریل 2016

آئس لینڈ کے وزیر اعظم گَن لاگسن نے پاناما پیپرز میں نام آنے پر اپنا استعفیٰ پیش کر دیا ہے۔ قبل ازیں انہوں نے ملکی صدر سے پارلیمان کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1IPjT
تصویر: picture-alliance/dpa/Str

آج منگل کی شام آئس لینڈ کے وزیراعظم زیگمنڈر ڈیو گَن لاگسن نے پاناما پیپرز میں نام آے پر اپنے منصب سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ قبل ازیں انہوں نے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے لیے ملکی صدر سے ملاقات کی تھی۔

صدر اولافر گریمسن نے تصدیق کرتے ہوئے آج منگل کے روز بتایا کہ وزیراعظم گنلاگسن نے ان سے ملاقات کرتے ہوئے پارلمیان کو تحلیل کرنے کی درخواست کی ہے۔ ان کے بقول ملکی حزب اختلاف کی جانب سے شدید احتجاج اور پارلمیان میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد وزیر اعظم نے یہ تجویز پیش کی ہے۔ تحریک عدم اعتماد پر اسی ہفتے کے دوران رائے شماری ہو سکتی ہے۔ صدر گریمسن نے مزید کہا کہ وہ تمام اہم جماعتوں سے ملاقات کرنے کے بعد ہی اس بارے میں کوئی فیصلہ کریں گے۔

پیر کے روز حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے جماعتوں کے ہزاروں کارکنوں نے رائے کیاوک میں پارلیمان کا گھیراؤ کر کے وزیراعظم کے خلاف نعرے بازی کی اور ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین کا موقف ہے کو پاناما پیپرز میں وزیراعظم کی اہلیہ کی کمپنی کا بھی ذکر ہے اور وزیراعظم اس بارے میں وضاحت پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

Symbolbild Panama Papers - Daten-Leak Steuerflüchtlinge
تصویر: picture-alliance/maxppp/J. Pelaez

اس تناظر میں41 سالہ گنلوکسن کا کہنا تھا، ’’میں نے انڈیپینڈنس پارٹی کی قیادت کو بتا دیا ہے کہ اگر اس پارٹی کے منتخب نمائندے مشترکہ منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں حکومت کی مدد نہیں کر سکتے تو میں پارلیمان تحلیل کرتے ہوئے عام انتخابات کرانے کا اعلان کروں گا۔‘‘

وزیراعظم کے خلاف منگل کو بھی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ پاناما لیکس کے مطابق ’Wintris Inc‘ کے نامی کمپنی 2007ء میں قائم کی گئی تھی اور اس کا مقصد وزیراعظم کی اہلیہ کو ملنے والی جائیداد کے معاملات کی دیکھ بھال کرنا تھا۔ وزیراعظم کی اہلیہ ایک انتہائی امیر کاروباری شخص کی صاحبزادی ہیں اور انہیں وراثت میں بہت کچھ ملا ہے۔

وزیر اعظم گن لاگسن نے 2009ء میں اپنے پچاس فیصد شیئرز علامتی طور پر ایک ڈالر میں فروخت کر دیے تھے۔ تاہم جب وہ اپریل 2009ء میں وہ اپنی جماعت کی جانب سے رکن پارلیمان منتخب ہوئے تھے تو انہوں نے بیرون ملک اپنے اثاثوں کو ظاہر نہیں کیا تھا۔

اتوار کے روز پاناما پیپرز کے نام سے تقریباً ساڑھے گیارہ ملین خفیہ دستاویزات منظرعام پر آئیں تھیں۔ ان میں ٹیکس بچانے کے لیے سرمایہ سمندر پار منتقل کرنے والی متعدد اہم معروف سیاسی اور کاروباری شخصیات کے نام درج ہیں۔ اس سلسلے میں متعدد ممالک نے تفتیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جرمن وزیر انصاف ہائیکو ماس کے مطابق ٹیکس چوری میں ملوث ہر شخص اور ادارے کے خلاف قانونی چارہ جوئی ضرور کی جائے گی۔