1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئی ایس آئی پر طالبان کی مدد کا الزام، دفتر خارجہ چپ

27 اکتوبر 2011

وزارت خارجہ کی جانب سے ایک برطانوی نشریاتی ادارے کی اس رپورٹ پر کوئی باضابطہ ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس بارے میں ثبوت موجود ہیں کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی طالبان کی مدد کر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/130GB
تصویر: picture alliance / dpa

جمعرات کے روز اس بریفنگ میں خاتون ترجمان تہمینہ جنجوعہ نے امریکہ، افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کے بارے میں تو بات کی لیکن انہوں نے آئی ایس آئی پر لگنے والے نئے الزامات کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریک انصاف پاکستان کے سربراہ عمران خان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی حکومت کی پالیسی غیر واضح اور سمجھ سے بالاتر ہے۔

Pakistan Imran Khan
تحریک انصاف کے بانی عمران خانتصویر: Abdul Sabooh

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ افغانستان اور طالبان کے معاملے میں امریکہ اور پاکستان دونوں ہی تضاد کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’مجھے تو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ امن کی طرف جا رہے ہیں یا جنگ کی طرف جا رہے ہیں۔ اگر امن لانا چاہتے ہیں تو پاکستان کے پاس اگر کوئی سہولت ہے، تو طالبان سےبات چیت کر کے ان کو میز پر بٹھائیں، بجائے اس کے کہ مزید تباہی پھیلے اور لوگ مریں‘۔

دوسری جانب تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کسی بھی نشریاتی ادارے کی جانب سے کسی ملک کے اہم ترین ریاستی اداروں میں سے کسی پر شدت پسندوں کے ساتھ روابط کا الزام ہر حال وضاحت کا متقاضی ہے۔

Der pakistanische Präsident.
صدر آصف ذرداریتصویر: AP

تجزیہ نگار مشرف زیدی کا کہنا ہے کہ ان الزامات کے جواب میں اگر حکومت پاکستان صحافیوں اور حقائق جاننے والے کسی غیر جانبدار کمیشن کو وزیرستان بھیجے تو سچ کا پتہ چلایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘میں وزیرستان نہیں جا سکتا۔ آپ وزیرستان نہیں جا سکتے، نہ ڈاکومنٹری بنانے والے وزیرستان جا سکتے ہیں۔ یہ چیزیں کھولنا پڑیں گی۔ جب کھلے عام تحقیقات نہیں کی جاسکتیں تو کوئی تجزیہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ بہتر یہ ہو گا کہ ہم سب سے پہلے آزاد تحقیقات کرائیں، شفاف طریقے سے، پھر ہم ان کی بنیاد پر تجزیہ کریں۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ آئی ایس آئی طالبان کی مدد کر رہی ہے یا نہیں، یہ جاننے کے لیے کسی ایسے تیسرے فریق کو چھان بین کرنی چاہیے جس کا اپنا کوئی مفاد نہ ہو۔ صحافیوں کو بھی وہاں جانے دیجیے تا کہ وہ بھی اس معاملے کا کھوج لگا سکیں‘۔

دریں اثناء پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان نے کہا ہے کہ صدر آصف علی زرداری یکم نومبر کو استنبول میں پاکستان، افغانستان اور ترکی کے ایک مشترکہ سربراہ اجلاس میں شرکت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر دو نومبر کو اف‍غانستان کے بارے میں ہونے والی استنبول کانفرنس می‍ں پاکستان کی نما ئندگی کریں گی۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں