1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئی ایس کے خلاف کامیابی لیکن یہ تنظیم لیبیا کے لیے خطرہ

عدنان اسحاق2 فروری 2016

اسلامک اسٹیٹ کے خلاف قائم بین الاقوامی اتحاد کے رکن ممالک روم میں جمع ہیں۔ اس اجلاس میں آئی ایس کے خلاف جاری کارروائیوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے جبکہ اس تنظیم کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کو بھی کم کرنے پر تبادلہ خیال ہو گا۔

https://p.dw.com/p/1Ho5Z
تصویر: Reuters/N. Kamm

اطالوی دارالحکومت روم میں ہونے والے ایک روزہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ تیل کے غیر قانونی کاروبار سے چلنے والی جھوٹی خلافت کوئی بھی نہیں چاہتا۔ کیری کے بقول امریکا اور اس کے یورپی اور عرب ساتھی ممالک کو عسکری شعبے میں تربیت میں اضافہ کرنا چاہیے تاکہ لیبیا کی فوج کو تعاون فراہم کیا جا سکے۔ ’’لیبیا کی فوج کو مدد صرف اس لیے فراہم نہیں کی جانے چاہیے کہ وہ علاقوں سے آئی ایس سے خالی کرائیں بلکہ اس شورش زدہ ملک میں حکومت کو تحفظ کا وہ احساس دیا جائے تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو کر فعال کردار ادا کر سکے۔‘‘

روم اجلاس میں تیئس سے زائد ممالک کے نمائندے موجود ہیں۔ اس دوران اسلامک اسٹیٹ کی عراق و شام کے کچھ علاقوں میں قائم خود ساختہ خلافت کے پھیلاؤ اور اس سے متاثر ہونے والے ممالک خاص طور پر لیبیا کے موضوع پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔ یہ دہشت گرد تنظیم چار سال سے زائد عرصے میں پھیلی ہوئی افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس ملک میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ ساتھ ہی لیبیا میں دو متوازی حکومتیں قائم ہیں اور آئی ایس، طاقت میں موجود اس خلاء کا بھی فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اس صورتحال میں عالمی طاقتوں کو ڈر ہے کہ اگر آئی ایس نے شام و عراق کی طرز پر لیبیا میں بھی خلافت کے قیام کا اعلان کر دیا تو حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔ اسلامک اسٹیٹ نے لیبیا میں تیل کے تنصیبات اور بنیادی ڈھانچے پر حملے کیے ہیں۔

Frank-Walter Steinmeier Rom Italien IS Minister Treffen
تصویر: Reuters/M.Rossi

اس تناظر میں کیری کا روم میں صحافیوں سے کہنا تھا، ’’ہم لیبیا میں ایک مؤثر نمائندہ حکومت کے قیام کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔‘‘ اقوام متحدہ کی میزبانی میں ہونے والے اجلاس میں لیبیا کی متحارب گروپوں نے گزشتہ ماہ ہی ایک متحد حکومت کے قیام پر اتفاق رائے تو کر لیا تھا لیکن ایک ماہ گزرنے کے باوجود بھی اس معاہدے کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا ہے۔ مغربی ممالک آئی ایس کو لیبیا میں نشانہ بنانے کے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ مہاجرین کا بحران بھی ہے کیونکہ لاقانونیت کی وجہ سے لیبیا غیر قانونی انداز میں یورپ کا سفر کرنے والوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔

اس سے قبل اسلامک اسٹیٹ کے خلاف قائم بین الاقوامی اتحاد کے رکن ممالک کا اجلاس جون 2015ء میں ہوا تھا۔ شرکاء کے مطابق اس دوران آئی ایس کے خلاف جاری کارروائیوں میں کافی حد تک کامیابی ہوئی ہے اور عراق و شام میں کئی علاقے اس شدت پسند تنظیم سے آزاد کرائے جا چکے ہیں۔ عراقی شہر رمادی اس کی ایک مثال ہے۔