1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آبی توانائی سے بجلی کا حصول: یورپ کا لیڈر ناروے

25 جون 2009

صنعتی طور پر ترقی یافتہ شمالی یورپی ملک ناروے کی کامیابی کا راز کافی حد تک اس کم قیمت توانائی میں پوشیدہ ہے جو پانی سے حاصل کی جاتی ہے۔ ناروے اپنی بجلی کی کل ضروریات کا 98 فیصد حصہ ہائیڈل پاور سے پورا کرتا ہے۔

https://p.dw.com/p/IaYf
ہائیڈل پاور منصوبے بجلی کے حصول کا موثر ترین ذریعہ سمجھے جاتے ہیںتصویر: AP

شمسی توانائی اور ہوا سے پیدا کی جانے والی بجلی کا ایک بڑا مسئلہ اس کو بعد میں استعمال کرنے سے پہلے کسی جگہ ذخیرہ کرنا ہوتا ہے۔ اس کا ایک بہت اچھا حل یہ ہے کہ بجلی زیادہ سے زیادہ ہائیڈل پاور منصوبوں کی مدد سے حاصل کی جائے۔ آج اگر ناروے یورپ کا بیٹری ہاؤس کہلانے لگا ہے تو اس میں اس حقیقت کا بھی بہت زیادہ عمل دخل ہے۔

ناروے نے کم قیمت اور بہت زیادہ بجلی کی پیداوار کے عمل میں یورپ کے بہت سے دوسرے ملکوں کو اگر پیچھے چھوڑ دیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں موسم بہار میں برف پگھلنے کی وجہ سے دریاؤں میں آنے والے بہت زیادہ پانی اور موسم خزاں میں بہت زیادہ بارشوں کے نتیجے میں دستیاب آبی وسائل کو پورے ملک میں سینکڑوں کی تعداد میں موجود مصنوعی جھیلوں میں جمع کرلیا جاتا ہے۔ یہ جھیلیں بہت بڑی بڑی بھی ہیں اور بہت چھوٹی بھی۔ ان جھیلوں کے لئے آبی گذرگاہوں پر جو بند باندھے جاتے ہیں ان میں ماضی میں کنکریٹ سے تعمیر کئے گئے بہت بڑے بڑے ڈیم بھی ہیں اور وہ لاتعداد چھوٹے چھوٹے ڈیم بھی جو مقابلتا کم لاگت کے ساتھ مٹی سے تعمیر کئے جاتے ہیں۔

ہائیڈل پاور کا عالمی چیمپئین ناروے

بہت سے جزائر اور وسیع وعریض رقبے کے حامل ملک ناروے میں پانی سے بجلی کی پیداوار کی صنعت اتنی ترقی یافتہ ہے کہ خود ناروے بجلی کی اپنی مجموعی ضروریات کا قریب 98 فیصد حصہ اسی ہائیڈل پاور سے پورا کرتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ پورے یورپ میں پانی سے جتنی بھی بجلی پیدا کی جاتی ہے، اس کے ایک چوتھائی حصے کا ذمہ دار بھی ناروے ہے اور یورپ کے مختلف ملکوں میں بجلی ذخیرہ کرنے کی جتنی بھی تنصیبات ہیں، ان کی مجموعی صلاحیت میں بھی ناروے کا حصہ 50 فیصد کے قریب بنتا ہے۔

Offshore Windenergie Meer Blåvandshuk in Dänemark
ہوا سے بجلی کی پیداواری تنصیبات کی کارکردگی کا انحصار موسم پر ہوتا ہےتصویر: AP

ناروے میں بجلی کے پیداواری شعبے کی صلاحیت میں آئندہ برسوں میں اس لئے یقینی طور پر مزید اضافہ ہوگا کہ اب تو یہ منصوبہ بھی بنایا گیا ہے کہ جرمنی میں ہوا سے پیدا کی جانے والی لیکن فوری طور پر استعمال میں نہ آنے والی بجلی آئندہ ایک زیر سمندر نیٹ ورک کے ذریعے ناروے کو برآمد کی جائے گی جو اسے اپنے ہاں ذخیرہ کرے گا اور بوقت ضرورت یہ توانائی واپس جرمنی کو برآمد کی جاسکے گی۔

ہوا سے توانائی کا حصول اور موسمی عوامل

ہوا سے بجلی پیدا کرنے والی تنصیبات جنہیں عرف عام میں ونڈ پارک کہتے ہیں، ان کی کارکردگی کا انحصار موسم پر ہوتا ہے۔ ونڈ پاور کے پیداواری نیٹ ورک میں چونکہ توانائی کا توازن ہر حال میں قائم رکھنا ہوتا ہے، اس لئے اس نیٹ ورک میں بہت زیادہ مقدار میں بجلی کی موجودگی بھی ایک بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔ بجلی کے پیداواری شعبے کے بڑے بڑے یورپی اداروں کے لئے اس مسئلے کا حل ناروے میں ہائیڈل پاور منصوبوں نے مہیا کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ناروے میں اب مٹی کے بہت سے نئے ڈیم تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی بھی کی جارہی ہے اور وہاں کے کاروباری ادارے اپنے ہاں پیدا ہونے والی فاضل بجلی کی بیرون ملک تجارت پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینے لگے ہیں۔

ایک دریا پر آٹھ ڈیم

ناروے میں دریائے اوترا کے گہرے پانیوں سے کہیں اوپر نومے لینڈ نامی بجلی گھر کے نگران روآلڈ چوتے لان ایک ایسے انجینئر ہیں جو گذشتہ کئی برسوں سے اس ہائیڈل پاور بروجیکٹ کے نگران ہیں۔ دریائے اوترا پر قائم یہ ڈیم بہت اونچی دیواروں والا پتھر اور کنکریٹ سے بنا ایک ایسا تعمیراتی ڈھانچہ ہے جو اپنی منفرد حیثیت میں ایسا ہی ہے جیسے کوئی وسیع وعریض اور تاریخی کیتھیڈرل!

اس ڈیم کے بارے میں روآلڈ چوتے لان کہتے ہیں: "طویل عرصہ قبل یہ ڈیم بڑے ہی خوبصورت انداز میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس پر مالی وسائل بھی دل کھول کر خرچ کئے گئے تھے۔ مغربی دنیا کی ایک ترقی یافتہ صنعتی ریاست کے طور پر ناروے کی پہچان کی بنیاد یہی کم قیمت بجلی بنی تھی۔ آج ناروے اپنی بجلی کی جملہ ضروریات کا 98 فیصد حصہ ایسے ہی آبی منصوبوں سے پورا کرتا ہے۔ حقیقت میں ناروے کے کسی بھی شہری کے لئے پانی کی اہمیت صرف پانی ہونے سے کہیں زیادہ ہے۔"

Bachmann's Mill pond and dam in Tonder, Denmark
آبی بجلی کی یورپی پیداوار میں ناروے کا حصہ ایک چوتھائی بنتا ہےتصویر: Hans Ole Hansen

ناروے میں دریائے اوترا ملک کے شمالی حصے کے بالائی علاقوں سے شروع ہوکر 245 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد جنوبی ناروے میں کرسٹیان زنڈ نامی شہر کے نواح میں بحیرہ شمالی میں جا گرتا ہے۔ اس دریائی پانی کے راستے میں آٹھ مختلف ڈیم تعمیر کئے گئے ہیں جن میں سے نومے لینڈ کا آبی بجلی گھر سب سے پرانا ہے۔ اسے 1920ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔

روایتی لیکن قابل اعتماد ٹیکنالوجی

نومے لینڈ کے آبی بجلی گھر کا انتظام اَیگدر انرجی نامی پیداواری ادارے کے پاس ہے۔ روآلڈ چوتے لان کہتے ہیں کہ اس طرح بجلی پیدا کرنے کا طریقہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو آج بھی اتنی ہی قابل اعتماد ہے جتنی وہ عشروں پہلے تھے۔ اس بجلی گھر سے حاصل ہونے والی توانائی کے بارے میں روآلڈ چوتے لان کہتے ہیں: "اس بجلی گھر کے ٹربائن 1920 سے لے کر آج تک انتہائی قابل اعتماد انداز میں کام کررہے ہیں۔ ان میں سے گذرنے والے پانی کا حجم 180 مربع میٹر فی سیکنڈ بنتا ہے۔ اس بجلی گھر کی کل سالانہ پیداوار 170 گیگاواٹ گھنٹے بنتی ہے جو تقریبا 15 ہزار گھرانوں کی سال بھر کے دوران بجلی کی جملہ ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہے۔"

نورجر کنسورشیم

نومے لینڈ کے بجلی گھر سمیت ناروے میں تقریبا تین درجن آبی بجلی گھروں کا انتظام ایگدر انرجی نامی ادارے کے پاس ہے۔ جنوبی ناروے میں کرسٹیان زنڈ یا کسی دوسرے شہر میں اگر کسی بھی ماہر سے پوچھا جائے تو جواب یہ ہوتا ہے کہ ناروے میں ابھی بھی اتنی بجلی پیدا نہیں ہوتی جتنی کہ کی جا سکتی ہے۔ اسی لئے بالائی ناروے کے پہاڑی علاقوں میں نئے ڈیم تعمیر کئے جارہے ہیں اور پہلے سے موجود آبی بجلی گھروں میں تکنیکی تنصیبات کو بھی جدید بنایا جارہا ہے۔

Erneuerbare Energie - Wasserkraft
ناروے نے کم قیمت اور بہت زیادہ بجلی کی پیداوار میں بہت سے یورپی ملکوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہےتصویر: dpa

بجلی کی فراہمی کا زیر سمندر منصوبہ

ایگدر انرجی نامی تجارتی ادارہ ’نورجر‘ کنسورشیم کا حصہ ہے جو جرمنی اور ناروے کے درمیان توانائی کی منتقلی کا ایک زیر سمندر نیٹ ورک تعمیر کرنے پر ایک بلین یورو کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ’نورجر‘ نامی کنسورشیم کے سربراہ ایڈورڈ لاؤاین کے بقول ا س زیر سمندر منصوبے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مستقبل کے ان حالات کے لئے آج ہی سے تیاری کی جائے جو آئندہ برسوں میں جرمنی میں توانائی کے قابل تجدید ذرائع کے استعمال پر زیادہ انحصار کے نتیجے میں پیدا ہوں گے۔

نورجر کنسورشیم کے سربراہ کا کہنا ہے: "ہوا سے بجلی کی پیداوار کا بہت زیادہ انحصار موسم پر ہوتا ہے۔ ونڈ انرجی کے شعبے میں کسی بھی پیداواری نیٹ ورک میں توازن بھی انتہائی لازمی ہے۔ جرمنی میں اگر تیز ہوائیں چلنے کے نتیجے میں بہت زیادہ ماحول دوست توانائی حاصل کی جاتی ہے تو یہ ضروری ہوجائے گا کہ اس اضافی بجلی کو زیر سمندر کیبل نیٹ ورک کے ذریعے ناروے کو برآمد کردیا جائے۔

دھوپ اور ہوا کم ہوں تو پانی

ناروے کو جرمن بجلی کی برآمد کی صورت میں ناروے میں آئندہ کئی آبی بجلی گھر جزوی طور پر بند کردئے جائیں گے اور وہاں کے صارفین جرمنی سے درآمد کردہ بجلی استعمال کرنے لگیں گے۔ تاہم اگر جرمنی میں کسی بھی موسم میں سورج زیادہ نہیں چمکتا یا تیز ہوائیں نہیں چلتیں، تو ناروے اپنے پہلے سے کام کرنے والے آبی بجلی گھروں کو دوبارہ مکمل طور پر استعمال میں لائے گا اور جرمنی کو زیر سمندر کیبل نیٹ ورک کے ذریعے بجلی فراہم کی جائے گی۔

توانائی کے مشترکہ مفادات

اس تجارت سے فائدہ ناروے ہی کو ہوگا کیونکہ ناروے میں تو بجلی کی کوئی کمی نہیں ہوتی مگر جرمنی جیسے یورپی ملکوں میں، جن کی آبادی ناروے جیسی ریاستوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، گرمیوں کے موسم میں بجلی کی طلب میں بے تحاشا اضافہ ہوجاتا ہے۔

’نورجر‘ کنسورشیم کے سربراہ ایڈورڈ لاؤاین کے مطابق توانائی کی ایسی تجارت سے خود ناروے میں عام صارفین کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ "آبی بجلی گھروں کی پیداوار میں بھی اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آتا رہتا ہے جو 20 فیصد تک ہوسکتا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ہم مقابلتا کم بارش والے برسوں میں بھی ناروے میں عام صارفین کو قیمتوں میں کسی رد وبدل کے بغیر بجلی کی ترسیل کو یقینی بنا سکیں گے۔"

تحقیق و تحریر : مقبول ملک

ادارت : گوہر گیلانی