1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آج منایا جانے والا آزادی صحافت کا بین الاقوامی دن

3 مئی 2008

آزادی صحافت کسی بھی آزاد معاشرے کی پہلی شرط ہوتی ہےکیونکہ پریس کی آزادی کے بغیر بدعنوانی، اقربا پروری اور غلط طرز حکومت کے خلاف کوئی بھی جدوجہد کامیاب نہیں ہو سکتی۔

https://p.dw.com/p/Dsiv
پاکستانی قبائلی علاقوں میں صحافیوں کو انتہائی پرخطر اور پریشان کن حالات کا سامنا ہےتصویر: AP

پریس کی آزادی کے بغیر نہ تو انسانی حقوق کا احترام ممکن ہے اور نہ ہی کوئی جمہوریت زیادہ عرصے تک زندہ رہ سکتی ہے۔ تین مئی ہفتہ کے روز منائے جانے والے آزادی صحافت کے بین الاقوامی دن کی مناسبت سے میو دراگ زورش کا لکھا تبصرہ :


دنیا بھر میں شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جہاں پریس کی آزادی خطرے میں نہ ہو۔ پھر بھی یہ ایک اچھی خبر ہے کہ نو منتخب روسی صدر دیمیتری میدویدیف نے حال ہی میں یہ اعلان کیاکہ وہ اپنے دور صدارت میں آزادی صحافت کا احترام کریں گے اور سول سوسائٹی کو مضبوط بنائیں گے۔ لیکن ساتھ ہی میدویدیف کا یہ اعلان ایک بری خبر بھی ہے کہ وہ اپنے پیش رو ولادیمیر پوٹین کی سیاست پر عمل پیرا رہیں گے۔ میدویدیف یہ دونوں کام بیک وقت نہیں کرسکیں گےکیونکہ صدر پوٹین نے تو روسی الیکٹرانک میڈیا کو اس حد تک غلط استعمال کیا کہ وہ کریملن ہی کے سیاسی دست و پا بن کر رہ گئے۔

روس میں اگر صرف ٹیلی ویژن ادارے ہی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انداز میں رپورٹنگ کرنے کے قابل ہوجائیں تو اس کا مثبت اثر قاذخستان، ازبکستان، آذربائیجان اور سفید روس جیسی ریاستوں پر بھی پڑے گا۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تونئے روسی صدر پر پریس کی آزادی کے سلسلے میں عائد ہونے والی ذمے داری صرف وفاق روس تک ہی محدود نہیں ہے۔

دنیا بھر میں آج بہت سے خود پسند حکمران اپنے اپنے ملکوں میں نئی تبدیلیوں سے خوفزدہ ہیں۔ اسی لئے وہ غیر جانبدار صحافیوں کا تعاقب کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال زمبابوے کے صدر رابرٹ موگابے کی ہے جو ہر اس صاحب قلم کو کسی نہ کسی طور خاموش کرادینے کی کوشش کرتے ہیں جو اپنے وطن کی معیشی بدحالی، بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ ہوکر رہ جانے یا سیاسی دیوالیہ پن کے بارے میں ایمانداری سے کچھ کہنے یا لکھنےکی کوشش کرتا ہو۔ افریقہ، ایشیا اورمشرقی یورپ میں موگابے کی طرح کے درجنوں ڈکٹیٹر موجود ہیں۔

پریس کی آزادی کے عالمی دن کے موقع پر یہ بھی فراموش نہیں کیا جانا چاہیےکہ مغربی دنیا میں بھی آزادی صحافت کے اصولوں کی خلاف ورزیاں کی جاتی ہیں۔ امریکی حکومت عراق اور افغانستان میں فوجی صورت حال کے حوالے سے ذرائع ابلاغ پر مختلف شکلوں میں اثر اندازہونے کی کوشش کرتی ہے۔

سوڈان، میانمار یا پھر چین جیسے ملکوں میں پریس کی آزادی کی صورت حال بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ تبت کے مسئلے پر چینی اور غیر ملکی میڈیا کی رپورٹنگ میں کیا فرق ہے؟ سوال یہ ہے کہ ان ملکوں میں ذرائع ابلاغ اگر آزاد ہوتے تو وہاں کے عوام غیر ملکی میڈیا سے حاصل ہونے والی معلومات کے مقابلے میں کئی حوالوں سے بہتر طور پر آگاہ ہوتے۔ دنیا بھر میں اسی آزاد پریس کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے اور جہاں وہ نہیں ہے وہاں اس کے وجود کو ممکن بنانےکی کوششیں کی جانا چاہیئں ۔ یہی تین مئی ہفتہ کے روز منائے جانے والےعالمی یوم آزادی صحافت کا پیغام ہے۔