1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آج کا جرمن معاشرہ غير ملکيوں کے ليے کيسا ہے؟

عاصم سليم21 دسمبر 2015

ماہرين کا ماننا ہے کہ جرمنی ميں سرگرم اسلام مخالف تنظيم اپنے حد تک پہنچ چکی ہے اور اپنے گڑھ مانے جانے والے شہر ڈريسڈن کے علاوہ اس تنظيم کے مزيد پھيلنے کے امکانات کم ہی ہيں۔

https://p.dw.com/p/1HRHm
تصویر: imago/Eibner

رواں سال نومبر ميں پيگيڈا کی ايک ريلی ميں تقريباً دس ہزار افراد نے شرکت کی تھی ليکن شايد حاميوں کا اس سے بڑا مجمع اکٹھا کرنا اس تنظيم کے بس سے باہر کی بات ہے۔ ايسا ماننا ہے رينے يان کا، جو پيگيڈا کے شريک بانی تھے تاہم سال رواں کے آغاز پر انہوں نے اپنے راستے عليحدہ کر ليے۔ تاہم يان کا يہ بھی کہنا ہے کہ تنظيم بالکل ہی غائب بھی نہيں ہو گی۔

يورپ کو دوسری عالمی جنگ کے بعد ان دنوں تارکين وطن کے بد ترين بحران کا سامنا ہے۔ تقريباً ايک ملين پناہ گزين تو جرمنی پہنچ چکے ہيں۔ ليکن حيران کن بات يہ ہے کہ پناہ گزينوں سے عداوت کے سبب سب سے زيادہ فائدہ پيگيڈا کو نہيں بلکہ دائيں بازو کی جماعت ’آلٹرنيٹيو فار ڈوئچ لينڈ‘ يا جرمنی کے ليے متبادل کو پہنچا۔ يہ جماعت مہاجرين مخالف ہے اور ان دنوں رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اسے چھ تا دس فيصد حمايت حاصل ہے۔

ستمبر ميں پيگيڈا کے رہنما لٹس باخ مان نے اپنے حاميوں کی تعداد بڑھانے کے ليے ايک سياسی جماعت بنانے کے بارے ميں بھی ذکر کيا تھا۔ سياسی تجزيہ نگاروں ويرنر جے پاٹسيلٹ اور ہانس فورلائنڈر کے خيال ميں ايسا ممکن ہے کہ وہ اپنی اس بات کو پايہ تکميل تک پہنچائيں۔ رينے يان کا کہنا ہے کہ باخ مان دوبارہ اس بارے ميں ذکر اسی وقت کريں گے، جب ان کی ريليوں ميں شرکاء کی تعداد کم ہوتی ہے۔

پيگيڈا کی کہانی بہت سے جرمن شہريوں کے ليے اس بات کا ثبوت ہے کہ غير ملکوں اور مہاجرين کے خلاف ريلياں يا نعرے بازی مشرقی جرمنی ہی کی خصوصيت ہيں۔ نسل پرستی کے خلاف کام کرنے والی تنظيم اماڈيو انٹونيو فاؤنڈيشن سے منسلک آنيٹے کاہانے کہتی ہيں، ’’آج کل کوئی غير ملکی بغير سوچے سمجھے مشرق کی طرف نہيں جاتا۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ يہ اس کے ليے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘ وہ ايسے تاثرات کا تعلق غير ملکيوں سے نفرت کے سبب چوبيس برس قبل ہونے والے فسادات سے جوڑتی ہيں، جب ادارے آج کے مقابلے ميں کمزور تھے اور کميونسٹ نظام اپنے اختتام کو پہنچا تھا۔ ’’مہاجرين اور مہمان ملازمين اب پچھلے پچاس برسوں سے مغربی جرمنی ميں رہ رہے ہيں جبکہ فسادات کرنے والوں نے مشرق کا رخ کر ليا۔‘‘

اس کے برعکس مشرقی حصے کی قيادت کا ماننا ہے کہ پچھلی دو دہائيوں ميں مشرقی جرمنی کافی حد تک مغربی جرمنی ہی کی طرح ہو گيا ہے، جہاں اقليتوں کو معاشرے کا حصہ بننے ميں کوئی دشواری پيش نہيں آتی۔ ڈوئزبرگ ايسن يونيورسٹی ميں پوليٹيکل سائنس کے پروفيسر کارل روڈولف کورٹے کے مطابق مجموعی طور پر جرمن معاشرے ميں برداشت کا عنصر کافی زيادہ پايا جاتا ہے اور اکثريتی شہری ’خوف کی سياست‘ کی مخالفت کرتے ہيں۔