1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آستانہ مذاکرات ناکام ہوئے تو لڑائی جاری رہے گی، شامی باغی

23 جنوری 2017

شامی باغیوں نے کہا ہے کہ اگر آستانہ مذاکرات ناکام ہوئے تو وہ لڑائی کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ قزاقستان کے دارالحکومت میں شروع ہونے والے اس نئے مذاکراتی دور کو شامی خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے اہم پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2WFkG
Kasachstan Syrien Friedensgespräche in Astana
تصویر: Reuters/M. Kholdorbekov

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے شامی باغیوں کے ترجمان اسامہ ابو زید کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگر آستانہ مذاکرات میں صدر بشار الاسد کے نمائندوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ طے نہیں پاتا تو لڑائی جاری رکھنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا: ’’ یہ مذاکرات کامیاب ہو گئے تو ہم اس عمل کے ساتھ رہیں گے لیکن اگر یہ ناکام ہوئے تو ہمارے پاس لڑائی جاری رکھنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہو گا۔‘‘

نیا امن عمل، شامی اپوزیشن کا وفد آستانہ پہنچ گیا

شام میں تعینات روسی فوج میں کمی کا سلسلہ شروع

شامی فوج کے حملوں سے فائر بندی کمزور سے کمزور تر ہوتی ہوئی

باغیوں کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے، جب آستانہ میں شروع ہونے والے مذاکراتی دور کے پہلے سیشن میں باغی رہنماؤں نے دمشق حکومت کے مندوبین سے براہ راست مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ شامی اپوزیشن کے نمائندے اس امن عمل کے اگلے مرحلے میں شامی وفد کے ساتھ براہ راست مذاکرات کو تیار ہو جائیں گے یا نہیں۔

اگر فریقین براہ راست مذاکرات کے لیے تیار ہو جاتے ہیں تو سن دو ہزار گیارہ میں شروع ہونے والے شامی تنازعے کے بعد پہلی مرتبہ شامی باغیوں اور دمشق حکومت کے نمائندے براہ راست مکالمت کریں گے۔ باغیوں کا کہنا ہے کہ ایران، ترکی اور روس کی کوششوں سے شروع ہونے والے ان مذاکرات کا بنیادی مقصد ملک میں فائر بندی معاہدے پر عملدرآمد مؤثر بنانا ہے۔ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ایران نواز شیعہ فائٹرز اس جنگ بندی ڈیل کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

اگرچہ کچھ حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ آستانہ مذاکرات اہم ثابت ہوسکتے ہیں لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اس عمل سے شامی بحران کے حل کے سلسلے میں کسی فوری پیشرفت کی توقع نہیں جا سکتی ہے۔ اس امن عمل کے لیے آستانہ کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ یورپ سے باہر ہونے کی وجہ سے اسے ایک غیرجانبدار مقام قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ شام میں قیام امن کے سلسلے میں جنیوا میں مذاکراتی سلسلے کا اگلا دور آئندہ ماہ منعقد کیا جائے گا۔ قزاقستان کے صدر نورسلطان نذربائیف نے تئیس جنوری بروز پیر کے دن صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ دراصل آستانہ مذاکرات جنیوا میں جاری امن عمل کے لیے مددگار ثابت ہوں گے: ’’مجھے یقین ہے کہ آستانہ میں ہونے والے مذاکراتی عمل سے ایسے حالات پیدا ہوں گے، جہاں تمام فریقین جنیوا فریم ورک کے تحت شام میں قیام امن کے لیے ایک متفقہ حل پر اتفاق کر سکیں گے۔‘‘