1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آسٹریا میں صدارتی انتخابات، ایک جائزہ

25 اپریل 2010

آسٹریا کے عوام آج اتوار کے روز منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کر رہے ہیں۔ عوامی جائزوں کے مطابق موجودہ صدر ہائنزفشر کی فتح دیگر دو امیدواروں کے مقابلے میں یقینی ہے۔

https://p.dw.com/p/N5sj
تصویر: picture alliance / dpa

اب تک کے عوامی جائزوں میں یہی بات سامنے رہی کہ صدر ہائنزفشر کو قدامت پسندوں اور اسقاط حمل کے مخالفین کے مقابلے میں ممکنہ طور پردوسری مدت کے لئے صدر منتخب کیا جاسکتا ہے۔ صدارتی انتخاب کے سلسلے میں پولنگ کا آغاز مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے ہوا۔ شیڈیول کے مطابق پولنگ شام پانچ بجے تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہے گی۔ غیر حتمی نتائج کا سلسلہ پولنگ کے اختتام کے دو گھنٹوں بعد شروع ہو جائے گا۔

اس سے قبل ملک بھر میں ہونے والے عوامی جائزوں میں ہائنزفشر 82 فیصد عوام کی حمایت کے ساتھ سرفہرست رہے۔ ان کے مقابلے میں دو امیدوار ہیں۔ مدمقابل امیدواروں میں ایک انتہائی دائیں بازو کی قدامت پسند جماعت فریڈم پارٹی کی Barbara Rosenkranz ہیں جبکہ دوسرے امیدوار ایک چھوٹی جماعت کرسچیئن پارٹی کے روڈولف گیہرِنگ ہیں۔

ہائنز فشر کے مقابلے میں سب سے اہم رہنما باربرا روزن کرانس ہی ہیں، جنہیں عوامی جائزوں میں 16 فیصد عوام کی حمایت حاصل تھی۔ چند روز قبل ایک انٹرویو میں انہوں نے نازی نظریات اور دوسری عالمی جنگ میں یہودیوں کے قتل عام کے واقعے ہولوکاسٹ کے انکار پر پابندی کے قانون کو ’’غیر ضروری‘‘ قرار دیا تھا۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ اس قانون کی موجودگی سے آزادی رائے پر حرف آتا ہے۔ تاہم بعد میں انہوں نے ایک اور بیان میں کہا کہ وہ نازی دور میں ہونے والے جرائم کا ہرگز انکار نہیں کرتیں۔

Barbara Rosenkranz Wahlen Österreich
ہائنز فشر کے مقابلے میں سب سے اہم رہنما باربرا روزن کرانس ہی ہیںتصویر: picture alliance / dpa

51 سالہ روزن کرانس کے شوہر نیو نازی پارٹی NDP کے ماضی میں رکن بھی رہے ہیں۔ یہ جماعت اب کالعدم قرار دی جاچکی ہے۔ روزن کرانس نے اپنی انتخابی مہم میں قدامت پسند گھریلو نظام اور جنس کے حوالے سے روایتی ضوابط پر زور دیا۔ روزن کرانس آسٹرین پارلیمان کی وہ واحد ڈپٹی ہیں، جنہوں نے سن 2005ء میں یورپی یونین کی لزبن ٹریٹی کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

مقامی ٹیلی ویژن چینلز پر نشر ہونے والے مباحثوں میں بیشتر مبصرین کا خیال رہا ہے کہ روزن کرانس کے صدر منتخب ہونے کی صورت میں بین الاقوامی سطح پر آسٹریا کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

دوسری جانب موجودہ صدر ہائنز فشر کے دوسرے انتخابی حریف روڈولف گیہرِنگ ہیں، جنہوں نے اپنی انتخابی مہم میں اسقاط حمل کے خلاف بیانات دئے۔ ان کی انتخابی مہم کا دوسرا موضوع معاشرے میں مسیحی مذہبی روایات کی ترویج ہے۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز ایک چرچ سے کیا تھا اور اپنی انتخابی مہم میں وہ ہر میٹنگ کا آغاز دعائیہ عبادت سے کرتے رہے۔ تاہم ان کی انتخابی مہم کو دھچکا اس وقت پہنچا، جب آسٹرین کیتھولک مسیحی کلیسا نے ان سے دوری اختیار کر لی۔ کیتھولک کلیسا نے گرجا گھروں کے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کو غیر مناسب قرار دیا تھا۔ عوامی جائزوں میں روڈولف گیہرِنگ کو چار سے پانچ فیصد آسٹرین باشندوں کی حمایت حاصل ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ صدر ہائنز فشرکے مقابلے میں ان دونوں ہی رہنماؤں کی نہ تو انتخابی مہم اتنی مضبوط تھی کہ عوامی سوچ اپنی حمایت میں موڑ سکتی اور نہ ہی دونوں رہنما عوامی موڈ کا اندازہ لگانے میں کامیاب ہوئے۔ ایسی صورت میں تمام تر سیاسی فائدہ موجودہ صدر ہائنز فشر کو ہی ہوگا۔

آسٹریا میں صدر کا عہدہ محض رسمی نوعیت کا ہوتا ہے اس لئے ان انتخابات کے دوران ووٹنگ کی شرح بھی کم رہنے کا امکان ہے۔

جائزہ : عاطف توقیر

ادارت : افسر اعوان