1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آنگيلا ميرکل دوبارہ سی ڈی يو کی چير پرسن منتخب

15 نومبر 2010

آج شہر کارلسروہے ميں جرمنی کی برسر اقتدار مخلوط حکومت کی بڑی پارٹی کرسچن ڈيمو کريٹک پارٹی يا سی ڈی يو کا پارٹی اجلاس شروع ہوا ہے۔ اس اجلاس ميں اہم سياسی موضوعات پر بحث کے علاوہ پارٹی کی قيادت کا انتخاب بھی ہواہے۔

https://p.dw.com/p/Q9pv
ميرکل کارلسروہے ميں دوبارہ چير پرسن منتخب ہونے کے بعدتصویر: dapd

سی ڈی يو کی چير پرسن اور چانسلر ميرکل کے مطابق اُن کی پارٹی ميں اختلاف رائے اور بحث و مباحثے کوئی پريشانی کی بات نہيں۔

اُنہوں نے کہا " يہ ايک عوامی پارٹی کی عام بات ہے کہ بار بار يہ سوال اٹھايا جاتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہيں اور کيا چاہتے ہيں۔ مجھے اس پر خوشی بھی ہے کہ سی ڈی يو ميں جو مختلف گروپس ہيں، جيسے کہ اقتصادی يا سماجی گروپ، وہ مسلسل اپنی آراء کا اظہار کرتے رہتے ہيں۔"

يہ بات چانسلر ميرکل نے کل شام جرمن ٹيلی وژن اے آر ڈی کے پروگرام ميں کہی۔ اُن کے لئے بھی آج شام اس لحاظ سے سنسنی خيز تھی کہ کسی کو صحيح اندازہ نہيں تھا کہ پارٹی چير مين کے انتخاب ميں اُنہيں کتنے فيصد ووٹ مليں گے۔ پچھلی مرتبہ انہوں نے 95 فيصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ اس مرتبہ اُنہيں اتنے زيادہ ووٹ تو نہيں مل سکے ليکن انہيں ديے گئے 90,4 فيصد ووٹ بھی اُن کی ڈھارس بندھانے کے لئے کافی معلوم ہوتے ہيں اور چانسلر آج ووٹنگ کے بعد بہت واضح طور پر مطمئن اور خوش دکھائی ديتی تھيں۔ ليکن اگر وہ 90 فيصد سے کم ووٹ حاصل کرتيں تو پھر يہ اُن کے لئے فکر کی بات ہونا چاہئے تھی کيونکہ يہيں سے سياسی افق تاريک ہونا شروع ہوتا ہے اور اس کے بعد ناکامياں ديکھنے کو ملتی ہيں۔ ميرکل نے سی ڈی يو کی دوبارہ چير پرسن منتخب ہونے کے بعد کہا: " ميں خوشی کے ساتھ اس عظيم پارٹی کی قائد کے طور پر کام کرتی رہوں گی۔" ميرکل سن 2000 سے اپنی پارٹی کی قائد اور سن 2005 سے چانسلر ہيں۔ اُنہيں سن2011 ميں مشکل صورتحال کا سامنا ہوگا کيونکہ جرمنی کے 16 صوبوں ميں سے چھ ميں اليکشن ہورہے ہيں اور اگر ان ميں سی ڈی يو اچھی کاميابی حاصل نہ کرسکی تو ميرکل کی پوزيشن خراب ہونا شروع ہوسکتی ہے۔

Flash-Galerie CDU Parteitag
چانسلر ميرکل پير کو اپنی پارٹی کے اجلاس سے مخاطب ہيںتصویر: dapd

صوبے باڈن ويوٹيمبرگ کے وزير اعلی اشٹيفن ماپُسنے جو اسٹٹگارٹ ميں زير زمين ريلوے اسٹيشن کی تعمير کی مخالفت کی وجہ سے خود بھی مشکلات ميں گھرے ہوئے ہيں، رائے شماری سے پہلے پر اميد طور پر کہا تھا کہ ميرکل کو بڑی تعداد ميں ووٹ مليں گے۔اُنہوں نے کہا: " ہم ايک ايسے وقت میں جو آسان نہیں ہے بہت اچھی سياست کررہے ہيں۔ يورپ ميں کوئی بھی اور ملک اس طرح بحران سے نہيں نکل سکا ہے جيسے کہ جرمنی۔آنگيلا ميرکل فيصلے کرنے سے نہیں ہچکچاتيں اور ميرے خيال ميں وہ اچھی کاميابی کی مستحق بھی ہيں۔"

ميرکل کے نائبين کو بھی اچھے نتائج کی اميد ہے۔ کارلسروہے ميں سی ڈی يو اس قيادتی سطح پر بالکل نئے چہرے سامنے لارہی ہے۔ چنانچہ تين نائبين کے عہدوں پر نئے افراد کو چنا جائے گا۔ تين سابق وزرائے اعلی رولانڈ کوخ، يُرگن رٹگرز اور کرسٹيان وولف کی جگہ وزير محنت اُرزولا فان ڈئر لائن، وزير ماحول نوربرٹ ريوٹگن اور صوبے ہيسے کے وزير اعلی اشٹيفن ماپُس مقرر کئے جائيں گے۔ نائب کی حيثيت سے صرف انيٹے شاوان اپنے عہدے پر برقرار رہيں گی۔

فون ڈئر لائن اور ريوٹگن کے ساتھ سی ڈی يو کی قيادت جديد اور عمليت پسند ہوجائے گی۔ ليکن ان ميں سے صرف ماپُس ہی قدامت پسند ہيں۔ کيا يہ نئی قيادت چانسلر مير کل کی وفادار ہوگی؟

اس بارے ميں خود ميرکل نے کہا: " مجھے اس سلسلے ميں کوئی فکر نہيں۔ ہم ايک مضبوط ٹيم ہوں گے۔"

CDU-Parteitag - Merkel
چانسلر ميرکل آنکھيں بند کئے انہماک سے پارٹی اجلاس ميں تقارير سن رہی ہيںتصویر: picture alliance / dpa

سی ڈی يو کی حالت پہلے اس سے بہتر تھی۔ مگر ايک عرصے سے جائزوں ميں اُسے صرف 30 فيصدووٹ مل پارہے ہيں۔اب حال ہی ميں اُس کی حالت پھر بہتر ہونا شروع ہوئی ہے۔ ليکن حکومت کی شروع کی لڑکھڑاہٹ نے بہت سے لوگوں کو برہم کيا ہے۔ ٹھيک پارٹی اجلاس کے موقع پر وزير ماليات وولف گانگ شوائبلے کا مسئلہ بھی پھر اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ چانسلر ميرکل کئی مرتبہ يہ واضح کر چکی ہيں کہ وہ وزير ماليات کو برطرف نہيں کرنا چاہتيں۔ ليکن اب پارٹی ميں اس پر کھلی بحث ہورہی ہے کہ کيا وزير ماليات کی، ٹيکس کے نظام کو سادہ بنانے کی کوششيں کافی ہیں يا نہيں۔ ليکن سی ڈی يو کے جنرل سکريٹری ہيرمن گريوہے نے ايک بار پھر واضح طور پر کہا: " وزير ماليات شائبلے نے قومی بجٹ کو بہتر بنانے اور عالمی ماليات کے سلسلے ميں جو کام انجام ديے رہے ہيں اُن کی ہم بہت قدر کرتے ہيں۔"

تاہم ٹيکس کے ضوابط کو سادہ بنانے کی مہم ٹيکس میں کمی کی بحث بن گئی ہے۔ ليکن ميرکل نے يہ واضح کرديا ہے کہ ٹيکس ميں رعايتوں کے لئے پيسے نہيں ہيں۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: کشور مصطفیٰ