1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آن لائن بزنس کا فروغ، پاکستان کے ’چھپے رستم‘ سامنے آتے ہوئے

عاطف بلوچ28 فروری 2016

موبائل انٹرنیٹ کی وجہ سے جہاں دنیا بھر کے شہری علاقوں میں بزنس کے مواقع زیادہ ہوئے ہیں، وہیں پاکستانی ہندوکش کے پہاڑی سلسلے میں دستکار خواتین کو بھی اپنی مصنوعات فروخت کرنے کا ایک نایاب موقع دستیاب ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1I3js
Symbolbild Wirtschaftssanktionen
تصویر: Sunny studio - Fotolia

چترال میں ہنرمند خواتین انتہائی محنت سے مختلف مصنوعات تیار کرتی ہیں۔ ہاتھ سے تیار کردہ یہ پراڈکٹس فروخت کرنا ان خواتین کے لیے انتہائی مشکل کام تھا۔ تاہم اب موبائل انٹرنیٹ نے یہ کام آسان بنا دیا ہے۔ پاکستان میں جب سے تھری جی اور فور جی انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہوئی ہے، تب سے چترالی خواتین میں بھی ای کامرس کا نیا رجحان پیدا ہوا ہے۔ اب یہ خواتین اپنے گھروں میں بیٹھے بیٹھے آن لائن اپنی مصنوعات فروخت کرنے کے قابل ہو گئی ہیں۔

چترال میں دستکار خواتین جہاں متعدد مصنوعات تیار کرتی ہیں، وہیں یہ مشہور زمانہ اسکارف بھی بناتی ہیں۔ یہ خواتین اس اسکارف کو Kai کے برانڈ کے ساتھ انٹرنیٹ کے ذریعے فروخت کرتی ہیں۔ سن 2015 میں pollyandotherstories.com ویب سائٹ قائم کی گئی تھی، جس میں Kai اور دیگر مقامی برانڈز آن لائن فروخت کیے جاتے ہیں۔ پچیس فروری کو اس ویب سائٹ کی تیسری سالگرہ منائی گئی۔

چترال جیسے پسماندہ علاقے میں ایسی خواتین کو ہنر تو آتا تھا لیکن وہ اپنی صلاحیتوں کے بہتر استعمال سے محروم تھیں۔ ان کے لیے اپنی مصنوعات کی فروخت ایک انتہائی پیچیدہ کام تھا، جس کی وجہ سے ان میں اپنی روایتی کاریگری کا کام متاثر ہو رہا تھا۔ تاہم اب ای کامرس نے ان کو ایک نئی امید دلا دی ہے۔

دستکاری کے برانڈ Kai سے وابستہ نسرین سرمد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’آن لائن فروخت نے مڈل مین (تاجر) کو ختم کر دیا ہے۔ اب چترال کی خواتین کو بین الاقوامی منڈی تک رسائی حاصل ہو چکی ہے۔‘‘ اس طرح صارفین کے ایسے تحفظات بھی دور ہو گئے ہیں کہ آیا جو اشیاء وہ خرید رہے ہیں، وہ اصلی بھی ہیں یا نہیں۔ سرمد کے مطابق اس ویب سائٹ سے ہی صارفین کو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کیا خرید رہے ہیں اور وہ شے کس نے بنائی ہے۔

ان دستکار خواتین کے کام کو ویب سائٹ کے ذریعے فروخت کرنے کے منصوبے کی بانی امینہ شیخ فاروقی کے مطابق، ’’مقامی کمیونٹی اور دستکار افراد کے گروپوں کے ساتھ سالوں تک کام کرنے کے بعد ہمیں اندازہ ہوا کہ مقامی سطح پر چھوٹے کاروباری گروپوں کو مرکزی منڈی یا خریداروں کے ساتھ رابطے میں لانا کتنا مشکل کام ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ دستکار چاہے کتنے ہی ماہر کیوں نہ ہوں، ان کی مارکیٹ تک براہ راست پہنچ انتہائی مشکل امر ہے۔ تاہم اب ویب سائٹ کے ذریعے ان ہنرمند خواتین کی رسائی بین الاقوامی مارکیٹ تک بھی ممکن ہو چکی ہے۔

آن لائن مارکیٹ ویب سائٹkaymu.pk کے سربراہ آدم داؤد کے بقول پاکستان جیسے ملک میں ایسے ہنرمند افراد کو اپنی مصنوعات فروخت کرنے کے لیے براہ راست پلیٹ فارم کا ملنا ایک بڑی کامیابی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آہستہ آہستہ ایسے مواقع میں اضافہ ہو رہا ہے کہ چھوٹے کاروباری افراد اپنی مصنوعات کو انٹرنیٹ کے ذریعے فروخت کر کے اچھا منافع کما سکیں۔ انہوں نے اس رجحان کو پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لیے بھی ایک اہم پیشرفت قرار دیا۔

Stamm der Kalash in Pakistan
چترال کی متعدد خواتین روایتی مصنوعات بنانے میں مہارت رکھتی ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

سترہ سالہ دانیال ایڈمانی ایک مثال

آن لائن مارکیٹ میں اپنی مصنوعات فروخت کرنے کے حوالے سے سترہ سالہ دانیال ایڈمانی ایک مثال ہیں، جنہوں نے ٹی شرٹس کا اپنا ایک برانڈ kaymu.pk پر لانچ کیا اور کامیابی حاصل کی۔ وہ کہتے ہیں کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ بور ہوتے تھے اور اسی بوریت کو دور کرنے کے لیے انہوں نے اپنا کام شروع کرنے کا ارادہ کیا۔ اب وہ جرمن کمپنی راکٹ انٹرنیٹ کے ایک پروگرام kaymu.pk کے ذریعے چھوٹی سی عمر میں نہ صرف اپنا نام بنا چکے ہیں بلکہ منافع بھی کما رہے ہیں۔

ای کامرس میں ترقی کے مواقع کو جانچتے ہوئے حکومت پاکستان نے بھی اس شعبے میں سرمایہ کاری کا منصوبہ بنایا ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں ہنرمند افراد اور چھوٹے کاروباری گروپوں کو درست سرپرستی ملنے سے وہ ملکی ترقی میں ایک اہم زینہ ثابت ہوسکتے ہیں۔

ایسی ہی ایک مثال نوشین کاشف کی بھی ہے، جنہوں نے اپنے بچوں کی خاطر بینک کی نوکری چھوڑ دی تھی لیکن پھر انہوں نے گھر بیٹھے آن لائن جیولری فروخت کرنے کا کام شروع کیا، جس سے انہیں کافی کامیابی ملی۔ وہ کہتی ہیں کہ ملک بھر میں آن لائن خریداری کا رجحان بڑھ رہا ہے۔