1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخ

آن لائن ہراساں نہ ہوں، مدد کے لیے مفت ہیلپ لائن پر کال کریں

بینش جاوید
28 دسمبر 2016

پاکستان میں آن لائن یا انٹرنیٹ پر ہراساں کیے جانے سے بچنے کے لیے ایک مفت ہیلپ لائن سروس کا آغاز کیا گیا  ہے۔ اپنے مسائل کے ساتھ کال کرنے والی خواتین کی معلومات کو مکمل طور پر صیغہء راز میں رکھا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2UxqD
Poster Cyber Harassment
یہ ہیلپ لائن مردوں اور خواتین دونوں کے لیے ہے لیکن زیادہ تر کالز خواتین کی ہی موصول ہوتی ہیںتصویر: Digital Rights Foundation

پاکستان میں غیر سرکاری تنظیم ’ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن‘ نے رواں برس یکم دسمبر سے اس ہیلپ لائن کا آغاز کیا ہے۔ 080039393 نمبر پر پیر سے جمعے تک کال کر کے آن لائن ہراساں کیے جانے سے متعلق مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی شمائلہ خان نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ہیلپ لائن مردوں اور خواتین دونوں کے لیے ہے لیکن انہیں زیادہ تر کالز خواتین کی ہی موصول ہوتی ہیں۔

اس ہیلپ لائن کے ذریعےتین طرح کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں

قانونی مشاورت

عموما خواتین پولیس تھانوں میں جانے سے گھبراتی ہیں اور وہ سمجھتی ہیں کہ اگر وہ کسی کے خلاف شکایت درج کرانا چاہتی ہیں تو انہیں تھانے جانا پڑے گا۔ شمائلہ کے مطابق اگر کوئی قانونی کارروائی کرنا چاہتا ہے تو اسے اس ہیلپ لائن کے ذریعے بتایا جاتا ہے کہ وہ کس طرح سے ایف آئی اے کے سائبر ہریسمنٹ وِنگ کو شکایت درج کرا سکتا ہے۔ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن ادارہ ایف آئی اے سے رابطے میں رہتا ہے اور اس بات کو یقنی بنایا جاتا ہے کہ ایف آئی اے سے ہیلپ لائن کے ذریعے آنے والے کیسسز کے بارے میں پوچھا جائے اور کوشش کی جائے کہ انہیں جلد حل کروا سکیں۔

ڈیجیٹل  سکیورٹی

دوسری سہولت متاثرہ خواتین کو ڈیجیٹل سکیورٹی فراہم کرنا ہے۔ شمائلہ خان کہتی ہیں کہ اگر کسی کا اکاؤنٹ ہیک کر لیا جاتا ہے تو ہمارے پاس ایسے ڈیجیٹل ایکسپرٹس موجود ہیں، جو اس معاملے کو حل کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

نفسیاتی اور جذباتی سپورٹ

تیسری سہولت آن لائن ہراساں کی جانے والی خواتین کو  نفسیاتی اور جذباتی سپورٹ فراہم کرنا  ہے۔ شمائلہ کے مطابق ان کے پاس ماہر نفسیات اور ایسے تربیت یافتہ افراد ہیں، جو ان خواتین کو مفت مشورے فراہم کرتے ہیں، جو انٹرنیٹ پر ہراساں کیے جانے کے باعث کسی ذہنی تناؤ یا  پریشانی کا شکار ہوتی ہیں۔

WhatsApp Image Digital Rights Foundation
شمائلہ کے مطابق فون کال کرنے والی لڑکیوں کو بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد ایک ’سپورٹ سسٹم‘ بنائیںتصویر: Digital Rights Foundation

شمائلہ خان کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کئی برس سے اس موضوع پر کام کر رہی ہے۔ اسی فاؤنڈیشن کا ایک منصوبہ ’ہمارا انٹرنیٹ‘ کے نام سے تھا۔ اس منصوبے کے تحت وہ مختلف اسکولوں اور کالجوں میں جا کر طلبہ کو انٹرنیٹ سکیورٹی کی تربیت دیتے تھے اور اس دوران احساس ہوا کہ بہت سی نوجوان لڑکیوں کو انٹرنیٹ کے حوالے سے بہت سی مشکلات کا سامنا تھا۔ ایسی کئی لڑکیاں تھیں جنہیں آن لائن ہراساں کیا جا رہا تھا اور وہ بدنامی کے خوف سے کسی کو بھی یہ بتانا نہیں چاہتی تھیں۔ اسی وجہ سے اس ادارے نے اس مفت ہیلپ لائن سہولت کا آغاز کیا۔

شمائلہ کے مطابق ایک ماہ میں انہیں لگ بھگ ایک سو فون کالز موصول ہوئی ہیں۔ ان میں مختلف نوعیت کے کیسز  ہیں۔ شمائلہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’زیادہ تر بلیک میلنگ کی شکایات موصول ہوتی ہیں۔  کچھ ایسی مثالیں ہیں جہاں انٹرنیٹ پر کوئی معلومات لیک ہو جاتی ہے یا اپنی مرضی سے کوئی ایسے تصویر دی گئی ہوتی ہے، جسے بعد میں بلیک میلر لڑکیوں کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ایسی مثالیں بھی ہیں جب لڑکیوں نے بلیک میلنگ کے ڈر سے مزید تصاویر بھیج دیں لیکن بلیک میلنگ کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔‘‘ شمائلہ کہتی ہیں کہ ایسے میں بہت سی لڑکیاں خوف کا شکار رہتی ہیں، انٹرنیٹ استعمال کرنا چھوڑ دیتی ہیں یا پھر شدید نفسیاتی تناؤ کا شکار ہو جاتی ہیں۔

Urdu Digital Rights Foundation
شمائلہ کے مطابق پہلا قدم مدد حاصل کرنے کے لیے اس ہیلپ لائن پر فون کرنا ہےتصویر: Digital Rights Foundation

شمائلہ کے مطابق فون کال کرنے والی لڑکیوں کو بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد ایک ’سپورٹ سسٹم‘ بنائیں، جن میں ان افراد کو شامل کریں، جن پر وہ بھروسہ کرتی ہیں تاکہ انہیں اس مشکل صورتحال کا سامنا تنہا نہ کرنا پڑے۔ بعض اوقات ہراساں کرنے والے کو بھی سمجھایا جاتا ہے کہ یہ ایک جرم ہے اور اس کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔ شمائلہ کے مطابق پہلا قدم مدد حاصل کرنے کے لیے اس ہیلپ لائن پر فون کرنا ہے۔