1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ابو آپ تو مت روئیے! پاکستانی باپ اور بیٹے کی کہانی

امتیاز احمد22 نومبر 2015

یہ پاکستانی مہاجر بچہ آہستہ سے اپنے باپ کی پیشانی پر اپنا نرم و نازک ہاتھ پھیر رہا ہے۔ زمین پر بیٹھا باپ ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا پکڑے زار و قطار رو رہا ہے۔ اس خاندان نے بہتر مستقبل کے لیے پاکستان چھوڑا تھا۔

https://p.dw.com/p/1HALP
Grenze Griechenland Mazedonien Flüchtlinge
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Licovski

جرمنی کے مشہور اخبار ’بِلڈ‘ کے مطابق یہ تصویر ایک پاکستانی باپ اور اس کے بچے کی ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مہاجرین کا بحران دن بہ دن کتنا غمناک ہوتا جا رہا ہے۔ اس پاکستانی خاندان کو یونان اور مقدونیہ کی سرحد سے آگے نہیں جانے دیا جا رہا۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ بلقان کی ریاستوں سربیا اور مقدونیہ نے ایسے اقدامات شروع کر دیے ہیں، جن کے تحت وہ صرف ’مخصوص ممالک‘ کے مہاجرین کو ہی آگے مغربی یورپ کی طرف جانے دے رہے ہیں۔ جرمن میڈیا نے تصویر میں نظر آنے والے پاکستانی باپ اور بیٹے کے نام تو نہیں بتائے، صرف یہ یقین کے ساتھ کہا گیا ہے کہ ان کا تعلق پاکستان سے ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی ترجمان میلِٹا سنجیک کے مطابق، ’’گزشتہ بدھ کے روز سے سربیا کے حکام صرف افغانستان، شام اور عراق کے مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دے رہے ہیں۔‘‘ ان کے مطابق سربیا کے حکام باقی تمام ممالک کے مہاجرین کو واپس مقدونیہ بھیج رہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ میڈیا پر نظر آنے والی پاکستانی باب بیٹے کی یہ تصاویر اس وقت لی گئیں، جب پاکستانیوں اور مراکش کے مہاجرین کی طرف سے سرحد عبور کرنے کے لیے احتجاج کیا جا رہا تھا۔ دل ہلا دینے والی باپ بیٹے کے یہ تصاویر ان یورپی اقدامات کے اثرات کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جن کے تحت مخصوص ممالک کے مہاجرین کو یورپی یونین میں داخلے سے روکا جا رہا ہے۔

Grenze Griechenland Mazedonien Flüchtlinge
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Licovski

میلِٹا سنجیک کا تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مقدونیہ کی طرف سے بھی مخصوص ممالک پاکستان، سری لنکا، سوڈان، مراکش اور لائبیریا کے مہاجرین کو ملک میں داخل نہیں ہونے دیا جا رہا۔ یونان کی سرحد مقدونیہ سے ملتی ہے اور مہاجرین یونان کے راستے اس ملک میں داخل ہوتے ہیں۔ اس سرحد پر مہاجرین اور تارکین وطن کو مدد فراہم کرنے والی مقدونیہ کی ایک فلاحی تنظیم ’قانون‘ کی سربراہ یاسمین رجپی کا کہنا ہے کہ سرحد پر قومیت کو مد نظر رکھتے ہوئے انتہائی سختی سے مہاجرین کو کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ اس خاتون سماجی کارکن کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’مقدونیہ صرف عراقیوں، افغانوں اور شامیوں کو ملکی سرحد پار کرنے کی اجازت دے رہا ہے۔‘‘

میڈیا اطلاعات کی مطابق گزشتہ جمعرات سے یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر سینکڑوں پاکستانی اور دیگر ملکوں سے تعلق رکھنے والے مہاجرین سرحد پار کرنے کے انتظار میں ہیں لیکن پولیس نے انہیں ایسا کرنے سے روک رکھا ہے۔ مقدونیہ اور سربیا مہاجرین کے زیر استعمال ’بلقان کے روٹ‘ کے ممالک ہیں۔ اسی راستے سے ہزارہا مہاجرین یورپی یونین میں داخل ہو رہے ہیں۔