1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اب امریکا کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوں گے، خامنہ ای

7 اکتوبر 2015

ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے بدھ کو امریکا کے ساتھ مزید مذاکرات پر پابندی عائد کر دی۔ اس سے قبل وہ امریکا کے ساتھ مذاکرات پر تنقید کر چکے ہیں، تاہم انہوں نے پہلی مرتبہ اس طرح واضح پابندی کا اعلان کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Gjxw
Ayatollah Ali Khamenei
تصویر: picture-alliance/dpa/Presidential Official Website

بدھ کے روز انقلابی گارڈز کے بحری کمانڈروں سے اپنے خطاب میں آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ امریکا کے ساتھ بات چیت سے ایران کو صرف اور صرف نقصان ہی ہو رہا ہے۔ ’’امریکا مذاکرات کے ذریعے ایران میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتا ہے مگر ایران میں کچھ بے خبر ایسے بھی ہیں، جو یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ شام میں ایرانی فوجی مداخلت اور تہران کے کردار کی نگرانی بھی ایرانی انقلابی گارڈز کے کمانڈرز ہی کر رہے ہیں۔

گزشتہ ماہ سینکڑوں ایرانی فوجی شام پہنچے، جو شامی فورسز اور لبنانی شیعہ عسکری تنظیم حزب اللہ کے ساتھ مل کر زمینی کارروائیوں میں شریک ہیں اور اب انہیں روسی فضائی مدد بھی حاصل ہے۔

خامنہ ای نے اپنے خطاب میں کہا، ’’ہم ایک نازک دور سے گزر رہے ہیں کہ جب ایران کے دشمن ہمارے حکومتی عہدیداروں اور عوام کے ذہن میں انقلاب کے حوالے سے نظریات تبدیل کرنے میں مصروف ہیں اور ہمارے قومی مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘‘

ایرانی سپریم لیڈر ’دشمنانِ ایران‘ کے الفاظ امریکا، مغربی ممالک اور اسرائیل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ خامنہ ای الزام عائد کرتے ہیں کہ یہ ممالک ایران کے ’اسلامی جمہوری‘ تشخص کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

Iran Teheran Rede Hassan Rohani
ایرانی صدر نے امریکا کے ساتھ بات چیت پر آمادگی ظاہر کی تھیتصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare

خامنہ ای کے اس بیان سے ایران کے قدامت پسند حلقوں کو شہ ملے گی، جو ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا مواخذہ چاہتے ہیں، کیوں کہ ظریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے حاشیے پر امریکی صدر باراک اوباما سے مصافحہ کر لیا تھا۔

منگل کے روز جواد ظریف نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ رسمی اور غیر رسمی طور پر بتا چکے ہے کہ ایسا ’حادثاتی‘ طور پر ہوا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’میرے ملک میں مجھے اس کی قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ مگر میں کچھ بھی کر لوں، میرے ملک میں مجھے اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔‘‘

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جولائی میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدہ طے پایا تھا، تو ایران کے اعتدال پسند طبقوں کو یہ امید ہو چلی تھی کہ اس سے دنیا میں ایران کی تنہائی ختم ہو جائے گی۔ تاہم خامنہ ای کی جانب سے امریکا کے ساتھ مذاکرات پر پابندی عائد کر دیے جانے کے بعد یہ امید موہوم ہو گئی ہے۔

خامنہ ای کا یہ بیان اعتدال پسند صدر حسن روحانی کے ان بیانات کے ساتھ بھی براہ راست متصادم ہے، جن میں وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ ایرانی حکومت شامی تنازعے کے حل کے لیے امریکا کے ساتھ بات چیت پر تیار ہے۔

خامنہ ای کا کہنا ہے، ’’امریکا کے ساتھ مذاکرات سے ایران میں امریکا کے اقتصادی، ثقافتی، سیاسی اور سکیورٹی اثر و رسوخ میں اضافے کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ جوہری مذاکرات کے دوران بھی انہوں نے ہماری قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔‘‘