1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اب اُرُوزگان کا دارالحکومت طالبان کے نشانے پر

عابد حسین8 ستمبر 2016

افغان طالبان نے جنوبی صوبے اُرُوزگان کے صدر مقام پر آج صبح ایک زوردار حملہ کیا۔ صوبائی حکومتی اہلکاروں کے مطابق اِس حملے کو کابل حکومت کی بروقت مدد سے پسپا کر دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Jybe
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/A.Kakar

جنوبی افغان صوبے اُرُوزگان کے حکام کے مطابق صوبائی صدر مقام ’ترین کوٹ‘ پر طالبان کےحملے کو جمعرات کی سہ پہر میں پوری قوت کے ساتھ پسپا کر دیا گیا ہے۔ کابل حکومت کے امدادی فوجی دستے بھی ترین کوٹ پہنچ چکے ہیں۔ صبح کے وقت حملہ کر کے عسکریت پسند شہر کے مرکزی بازار کے قریب پہنچ گئے تھے اور اب وہ پیچھے دھکیل دیے گئے ہیں۔

اضافی عسکری امداد میں جنوبی علاقے قندھار کی بارڈر پولیس کے سربراہ جنرل عبدالرزاق کو بھی فوری طور پر لڑائی کے مقام پر پہنچا دیا گیا تھا۔ افغانستان میں جنرل عبدالرزاق کی شہرت ایک دلیر، بہادر اور جنگی حکمت عملی کے ماہر کمانڈر کے طور پر ہے۔ اسی دوران افغان صدر اشرف غنی نے ترین کوٹ میں فوج کی کامیابی پر اطمینان کا اظوار کیا ہے۔

اُرُوزگان کے گورنر کے ترجمان کے مطابق کابل حکومت کی مدد نے حملے کو پسپا کرنے میں کلیدی کردار کیا۔ ترجمان نے یہ بھی بتایا کہ صبح کے حملے کے بعد صوبائی حکومت نے کابل سے ایئر فورس کی مدد کی بھی درخواست کی تھی۔ جمعرات کی شام تک ترین کوٹ کی فضاؤں میں جنگی ہوائی جہازوں کے ساتھ ساتھ فوجی ہیلی کاپٹرز بھی زمینی دستوں کی مدد کے لیے موجود تھے۔ اُرُوزگان کی صوبائی انتظامیہ اپنی جان بچانے کے چکر میں ترین کوٹ سے فرار ہو کر ہوائی اڈے میں پناہ لینے پہنچ گئی تھی۔

Afghanistan Armee Helicopter Transport verwundeter Zivilisten
قندھار سے کابل حکومت کے امدادی فوجی دستے بھی ترین کوٹ پہنچ چکے ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Khan

ترین کوٹ کے حملے میں شدت پسندوں کی پیشقدمی نے ایک مرتبہ پھر افغان فوج کی عسکری کمزوریوں اور کابل حکومت کی مجموعی سکیورٹی منصوبہ بندی کے دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔ ترین کوٹ پر طالبان کا فوری اور اچانک حملہ گزشتہ برس قندوز پر کیے گئے حملے کی طرز پر تھا۔ طالبان جنگجُو اچانک دھاوا بول کر حکومتی سکیورٹی کی دیوار میں شگاف ڈالتے ہوئے شہر کے قلب تک پہنچ گئے تھے۔ عسکریت پسندوں کے تیز رفتاری سے پیش قدمی کرنے پر صوبائی اور مرکزی حکومت میں ایک مرتبہ پھر پریشانی کی لہر دوڑ گئی ہے۔

قبل ازیں بتایا گیا تھا کہ کابل حکومت کے وفادار دستے عسکریت پسندوں کے ساتھ شہر کے وسطی حصے میں جھڑپیں جاری رکھے ہوئے تھے لیکن اب حملہ آوروں کو پسپائی کا سامنا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق گورنر ہاؤس کے قریب بھی عسکریت پسندوں کو سخت مزاحمت کے بعد پیچھے دکھیل دیا گیا ہے۔ حکام اور شہریوں کے مطابق ترین کوٹ کے بعض حصوں میں وقفے وقفے سے شدید فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔

طالبان کے حملے کے بعد عام شہریوں کے فرار کے راستے تقریباً بند ہو گئے ہیں۔ اس شہر کی آبادی ستّر ہزار نفوس پر مشتمل بتائی جاتی ہے۔ یہ صوبہ افیون کی کاشت کے اعتبار سے اہم تصور کیا جاتا ہے۔