1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اب جاپانی فوجی بھی باہر جا کر لڑیں گے، متنازعہ قانون منظور

عابد حسین19 ستمبر 2015

جاپانی وزیراعظم شِنزو آبے کی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ میں پیش کردہ سکیورٹی بلوں کو منظور کر لیا گیا ہے۔ اب جاپانی فوجی کسی بھی دوسرے ملک میں جاری جنگی مشن میں شرکت کے لیے تعینات کیے جا سکیں گے۔

https://p.dw.com/p/1GYzz
تصویر: Reuters/T. Peter

جاپانی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا نے آبے حکومت کے سکیورٹی بلوں کی شِق وار منظوری ہفتے کی علی الصبح دی۔ اِس سکیورٹی بل کی عوامی سطح پر خاصی مخالفت کی جا رہی تھی۔ جاپانی امور کے ماہرین نے اِس قانون سازی کو عوام مخالف اور زہریلا قرار دے رکھا تھا۔

اب ستر برس بعد جاپانی فوجی کسی غیر ملک میں تعیناتی کے ساتھ ساتھ اتحادیوں کے شانہ بشانہ جنگی کارروائیوں کا حصہ بھی بن سکیں گے۔ جاپان میں اب تک حکومت کو معمول کی ملٹری فوج اور اِس سے وابستہ دوسری سرگرمیاں جاری رکھنے کے حوالے سے آئینی قدغنوں کا سامنا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا نے اس پابندی کو جاپانی دستور کا حصہ بنا دیا تھا۔

سکیورٹی بل کو پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا کے 148 اراکین کی تائید سے منظوری حاصل ہوئی، نوّے ارکان نے اِس متنازعہ سکیورٹی بِل کی مخالفت میں ووٹ ڈالا۔ قوم پرست وزیراعظم شِنزو آبے کا کہنا ہے کہ یہ دستوری تبدیلی جاپان کی عسکری پالیسی کو معمول کے مطابق لانے سے متعلق ہے اور یہ خاص طور پر جارح رویے کی عکاس نہیں بلکہ جاپان کی دفاعی ضروریات کے مطابق ہے۔ اُن کے حامیوں کا بھی کہنا ہے کہ چین کی فوجی موومنٹ میں تسلسل اور شمالی کوریا کی غیر مستحکم جوہری پالیسی کے تناظر میں جاپان کو اپنے دفاع کی ازحد ضرورت ہے۔

Japan Tokio Änderung Sicherheitspolitik Shinzo Abe
جاپانی وزیراعظم شِنزو آبےتصویر: Reuters/T. Hanai

اِس قانون کی منظوری کے وقت پارلیمنٹ کے باہر ہزاروں افراد اِس کی مخالفت میں مظاہرہ کر رہے تھے۔ اِن مظاہرین نے خاص طور پر اُس وقت زور دار نعرہ بازی کی جب پارلیمانی منظوری کا اعلان کیا گیا۔ یہ لوگ دستور کو تحفظ دینے اور ’جنگ نہیں امن‘ کے مطالبات کے بھی نعروں کے علاوہ پلے کارڈز تھامے ہوئے تھے۔ آبے حکومت کے مخالفین کا کہنا تھا کہ یہ حکومتی عمل دستور اور عوامی احساسات کے منافی ہے۔ سکیورٹی بل کی منظوری کے بعد رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے جاپانی وزیراعظم شِنزو آبے نے مخالفین کے شبہات کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون سازی جاپانی عوام کی زندگیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کی گئی ہے اور یہ جنگ سے محفوظ رکھے گی۔

منتظمین کے مطابق جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب میں پارلیمنٹ کے سامنے ہونے والے مظاہرے میں چالیس ہزار سے زائد لوگ شریک تھے۔ دوسری جانب ٹوکیو پولیس کے مطابق کُل مظاہرین کی تعداد گیارہ ہزار کے قریب تھی۔ اِن افراد میں بے شمار بڑی عمر کے لوگ بھی شامل تھے۔ ساٹھ برس سے زائد عمر کے ایک کسان یکیکو اوگاوا کا کہنا تھا کہ وہ اِس مظاہرے میں رات بھر شریک رہنے کے لیے تیار ہے۔ بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ آبے حکومت کی اِس دستوری پیش رفت کے خلاف عوامی تحریک جاری رہے گی۔