1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

 اجتماعی قبر کی تحقیقات کی جا رہی ہیں، فوجی سربراہ

19 دسمبر 2017

میانمار کی فوج کا کہنا ہے کہ وہ ملک کی شمالی ریاست راکھین میں ایک اجتماعی قبر کے حوالے سے تحقیقات کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق راکھین میں روہنگیا مسلمانوں کو میانمار کے فوجیوں نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔

https://p.dw.com/p/2pdrs
Myanmar Min Aung Hlaing, General
تصویر: picture alliance/AP Photo/Aung Shine Oo

میانمار کی فوج نے کہا ہے کہ وہ ریاست راکھین کے ایک گاؤں میں ایک ایسی اجتماعی قبر کی چھان بین کر رہی ہے، جس میں مبینہ طور پر بڑی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں کو قتل کر کے دفنا دیا گیا تھا۔ میانمار کی فوج پر یہ الزام اقوام متحدہ کی طرف سے لگایا گیا تھا کہ راکھین کے ایک گاؤں میں ملکی دستوں نے روہنگیا اقلیت کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران بہت سے افراد کو قتل کر کے ان کی لاشیں اس اجتماعی قبر میں پھینک دی تھیں۔ غیر سرکاری تنظیم ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کے مطابق اس سال راکھین میں تنازعے کے آغاز کے پہلے ماہ میں ہی 6500 روہنگیا افراد مارے گئے تھے۔

عالمی ادارے کا میانمار کی فوج پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ راکھین میں روہنگیا مسلمانوں کی بڑے منظم انداز میں نسل کشی کی مرتکب ہوئی۔ راکھین سے اس سال اگست سے اب تک ساڑھے چھ لاکھ سے زائد روہنگیا باشندے مہاجرین کے طور پر بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ منگل کے روز ہیومن رائٹس واچ کی اس رپورٹ میں میانمار کی فوج کی جانب سے اس سال 30 اگست کے بعد سے ’قتل اور ریپ کے منظم‘ مبینہ واقعات کو تفصیلی بیان کیا گیا ہے۔

جنرل من آنگ لینگ تشدد کا سلسلہ روک پائیں گے ؟

دوسری جانب میانمار کی فوج  ان تمام الزامات کو رد کر چکی ہے اور متنازعہ ریاست راکھین میں داخلے کو بھی محدود رکھا ہوا ہے۔  پیر کے روز میانمار کے آرمی چیف کے فیس بک پیج پر  لکھا گیا کہ خفیہ معلومات کی بنا پر کچھ فوجیوں کو راکھین ریاست کے ’دن‘ نامی گاؤں میں کچھ نامعلوم افراد کی لاشیں ملی ہیں۔ اس فیس بک پوسٹ پر یہ نہیں لکھا گیا کہ میانمار کے فوجیوں کو کتنی لاشیں ملیں اور ان افراد کا تعلق کس مذہب یا علاقے سے تھا۔ تاہم فوجی سربراہ کے فیس بک پیج پر جاری بیان میں یہ لکھا گیا ہے کہ  اگر ان افراد کے قتل میں فوجی اہلکار ملوث پائے گئے تو ان کے خلاف سنگین کارروائی کی جائے گی۔

اس سال 25 اگست کو شدت پسند روہنگیا نے میانمار کے فوجیوں کی ایک چیک پوسٹ پر حملہ کر دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد اس ملک کی فوج نے راکھین میں روہنگیا افراد پر کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا اور روہنگیا شدت پسندوں کو نشانہ بنانے کا بھر پور دفاع بھی کیا تھا۔ میانمار کی فوج نے ان شدت پسندوں پر ہندوؤں کو قتل کرنے کا الزام بھی اس وقت عائد کیا تھا جب ستمبر کے ماہ میں 45 افراد کی لاشوں کی ایک اجتماعی قبر ملی تھی۔ پیر کے روز اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم کے رہنما زید رعد الحسین نے گزشتہ روز نیوز ایجنسی اے ایف کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا،’’ اگر کوئی عدالت روہنگیا مسلمان اقلیت کے میانمار میں قتل عام کو اُن کی نسل کُشی قرار دے دے تو انہیں اس بات پر قطعی حیرانی نہیں ہو گی۔‘‘