1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

احمدی نژاد کا امریکہ جانے کا فیصلہ

29 اپریل 2010

ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے NPT پر نظر ثانی سے متعلق اجلاس میں شرکت کی غرض سے امریکی ویزے کے لئے درخواست دے دی ہے۔

https://p.dw.com/p/N92b
تصویر: AP

خیال کیا جارہا ہے کہ احمدی نژاد اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب کے دوران ایرانی جوہری پروگرام کے پرامن ہونے کے بجائے اسرائیل کے مبینہ جوہری ہتھیاروں کے نکتے پر زیادہ زور دیں گے۔

امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان پی جے کراؤلی کے بقول چونکہ امریکہ اور ایران کے مابین سفارتی تعلقات منقطع ہیں، اس لئے احمدی نژاد نے سوئٹزرلینڈ کے امریکی سفارتخانے میں یہ درخواست جمع کرائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے زیرانتظام تین مئی سے شروع ہونے والے اس انتہائی اہم نوعیت کے اجلاس کا میزبان ہونے کی وجہ سے امریکہ پر بہت ذیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے عندیہ دیا ہے کہ احمدی نژاد کو امریکہ ویزا جاری کردیا جائے گا۔

Teheran Atomkonferenz 2010
رواں ماہ تہران میں جوہری عدم پھیلاؤ سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں ایرانی صدر نے مطالبہ کیا کہ NPT پر نظر ثانی میں ان ممالک کی رائے کو اہمیت دی جائے جن کے پاس جوہری ہتھیار نہیںتصویر: AP

28 مئی تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں ایرانی وفد کی قیادت کی ذمہ داری پہلے وزیر خارجہ منوچہر متقی کو سونپی گئی تھی۔ تاہم بعد میں صدر احمدی نژاد نے خود ایرانی وفد کی قیادت کا فیصلہ کیا۔ کانفرنس کے متوقع شرکاء میں 30 مملاک کے وزرائے خارجہ شامل ہوں گے، اس اعتبار سے ایرانی صدر سب سے اعلیٰ ترین حکومتی عہدیدار ہوں گے۔

امریکہ کی قیادت میں مغربی ممالک ایران پر NPT کی مبینہ خلاف ورزی کرنے اور جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے نئی تہران مخالف پابندیوں پر غور کررہے ہیں۔ NPT پر نظرثانی سے متعلق اس اجلاس میں مغربی مملاک کی کوشش ہوگی کہ ایران اور شمالی کوریا جیسے مملاک کو ’حساس جوہری توانائی‘ کے حصول سے روکنے کے لئے اس معاہدے میں مزید سخت نکات کا اضافہ کیا جائے۔

اجلاس کے موقع پر عرب ممالک اس بات پر زور دیں گے کہ مشرق وسطیٰ کو جوہری ہتھیاروں سے پاک خطہ بنانے کے نکتے کو NPT کا حصہ بنایا جائے، جس کا مطلب ہوگا کہ اسرائیل بھی اپنے مبینہ جوہری ہتھیار تلف کرے۔ اسرائیل میں پہلا Dimona نامی جوہری بجلی گھر 1965ء میں قائم کیا گیا تھا تاہم یروشلم حکومت نے تاحال جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کا اعتراف نہیں کیا ہے۔

Flash-Galerie Atommächte weltweit
چین کے جوہری بموں کے ماڈل، بیجنگ حکومت ایک وسط مدتی منصوبے کے تحت ملک میں ایک ہزار میگا واٹ کے حامل کم از کم 32 جوہری بجلی گھر بنانے کا ارادہ رکھتی ہےتصویر: AP

امکان ہے کہ پاکستان اور بھارت پر بھی اس معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے دباؤ بڑھایا جائے۔

جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدہ 1968ء میں تشکیل دیا گیا تھا، جس کا مقصد امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین کے علاوہ دیگر ممالک کے جوہری ہتھیاروں تک رسائی کو روکنا تھا۔ اس کے بدلے میں ان پانچ ممالک نے دیگر مملاک کو جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کی جانب بڑھنے اور پر امن مقاصد کے لئے جوہری توانائی کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی تھی۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں