1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اخبارات کا ایک نیا انداز

5 مئی 2006

سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ، الیکٹرونک میڈیا نے جو ترقی کی ہے، اس نے خبر کی ترسیل کے مسئلے کو انتہائی آسان اور سبک رفتار بنا دیا ہے۔ یہ اپنی جگہ پر انتہائی قابلِ تعریف انسانی کارنامہ ہے۔ کچھ پرانے خیالات کے لوگوں کا کہنا ہے کہ چَھپے ہوئے لفظوں کی حرمت ختم نہیں ہوسکتی-

https://p.dw.com/p/DYLS
تصویر: dpa

گذشہ کچھ عرصے سے کئی ملکوں میں اخبارات کی تقسیم اور اشاعت میں کمی کا رحجان سامنے آنے لگا ہے جو پریشان کن ہے۔ اِس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اخبارات نے الیکٹرانک میڈیا کی برق رفتاری کا فائدہ اٹھانے اور مقابلے کی فضا پیدا کرنے کے لئے اپنے اخبارات کو ڈیجیٹل شکل میں پیش کرنے کا منصوبہ بنایا ہے- اگرچہ اخبارات کے آن لائن ایڈیشن پہلے سے موجود ہیں لیکن جو نیا انداز اپنانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ الیکٹرانک اخبار کہلائے گا۔

اِس مناسبت سے Belgium کے معیشی اخبار De Tijd نے تجرباتی بنیادوں پر اپنے اخبار کا ای ایڈیشن شروع کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اِس میں اِستعمال ہونے والے خاص قسم کے آلات اس نے اپنے قارئین کو ارسال کئے ہیں- یہ ایک ہلکی طاقت والی ڈیجیٹل سکرین ہے، جس میں خاص قسم کی ڈیجیٹل روشنائی استعمال ہوتی ہے- یہ اِنک یا روشنائی درحقیقت انتہائی چھوٹے مائیکرو سکوپک Capsules یا خوردبینی تصویروں پر مشتمل ہے- یہ خوردبینی تصویریں اپنے حجم میں انسانی بال جتنی جسامت کی ہیں۔ اِن کے اندر موجود نامیاتی مواد یا Organic میٹیریل بجلی کی سپلائی سے متحرک ہو تا ہے اور وہ ہلکے یا سیاہ رنگ میں سکرین پر کچھ اشکال وضع کرتا ہے جو الفاظ یا ہندسوں کی صورت میں ہوسکتی ہیں۔

خبر کی تفصیلات یا ایک صفحے پر موجود تمام خبریں دیکھنے کے بعد ایک بٹن سے قاری مزید صفحات اور سکرین کو چھونے سے خبروں کا تفصیل سے مطالعہ کر سکے گا۔ ابھی یہ سکرین رنگین نہیں ہے بلکہ Grey رنگ کے سولہ مختلف Shades میں دستیاب ہے۔ مزید یہ کہ ابھی Device یا آلے کی سکرین لچک دار بھی نہیں ہے۔ اس کی قیمت بھی شاید قارئین کو ذرا مہنگی لگے جو سو ڈالر کے قریب ہے۔ De Tijd نے تین مہینے کا آزمائشی سفر شروع کر دیا ہے۔ جو Device یا آلات ابھی تک بانٹے گئے ہیں وہ ایک کتاب سے قدرے چھوٹے ہیں۔ ہر بار اِس کو اپ ڈیٹ کرنے کے لئے انٹرنیٹ کا سہارا لینا ہو گا۔

De Tijd کے قارئین کی تعداد چالیس ہزار ہے۔ الیکٹرانک اخبار کے اِس Device یا آلے کا نام iLiad eReader ہے- اِس میں اِستعمال ہونے والی ڈیجیل ink یا روشنائی امریکی کیمیا دانوں اور انجینئروں کا کمال ہے۔ اخبار کی یہ بھی ضد رہی ہے کہ وہ پرانے اندازِ اشاعت یا لفظوں کو لکھنے کا طریقہ برقرار رکھنا چاہتا ہے۔

De Tijd کے مینیجر کرِس Laenens کا خیال ہے کہ ان کے قارئین صبح ساڑھے سات بجے اخبار کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں اور اِس لئے اِس نئی ٹیکنالوجی کے بعد بھی یہ الیکٹرونک اخبار اسی وقت دستیاب ہوگا۔ اخبارات کے اشاعت کنندگان کا خیال ہے کہ یہ ماحول دوست ہو گا کیونکہ اِس طرح کاغذ کو کارخانوں میں تیار کرنے کے لئے جنگلوں کو کاٹنے کی ضرورت نہیں رہے گی اور دوسرے یہ طریقہ زیادہ مہنگا بھی نہیں ہو گا اور قارئین کی تعداد میں اضافے کا بھی خاصا امکان ہوگا۔ ادھر برطانیہ کے شہر کیمبرج میں بھی اِسی حوالے سے تحقیقی کام جاری ہے اور وہاں اِس سلسلے میں جو سکرین تیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس پر تصاویر بھی آ سکیں گی۔

ماہرین کا خیال ہے کہ سن دوہزار آٹھ تک اِس منصوبے کے تحت ترقی کی بہت سی منزلیں طے ہو جائیں گی اور ہو سکتا ہے کہ اِس آلے کی قیمت دس ڈالر تک ہو جائے۔ اِس آلے یا Device پر مزید ٹیسٹ یا تجربات ابھی ہو رہے ہیں کیونکہ پہلے بھی ایسی ایک کاوش ناکامی سے دو چا ر ہو چکی ہے۔ سن انیس سو نوے کے عشرے میں زورشور سے شروع کیا جانے والا ای یا الیکٹرانک کتابوں کا سارا منصوبہ ناکام ہو گیا تھا۔

De Tijd نامی اخبار کی اِس کوشش دیکھتے ہوئے کئی اور اخبارات بھی اِس منصوبے میں شریک ہونے لگے ہیں۔ اِن میں انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹریبیون نمایاں ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اخبارات کی اگلی نسل کی پلاننگ ہے۔ گزشتہ ماہ کی چودہ تاریخ کو اخبارDe Tijd نے اپنے منتخب قارئین میں اِن آلات یا Devices کوتقسیم کرنے کاعمل مکمل کر لیا۔ اِس سال کے آخر تک تقسیم شد ہ آلات یا Devices کی تعداد پانچ سو تک کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔

اس سائنسی مشن میں مشہورِ زمانہ فلپس الیکٹرانکس آگے آگے ہے۔ اِس ٹیکنالوجی کو iRex کا نام دیا گیا ہے۔ ایک مشاورتی کمپنی Tebaldo کے ماہرBruno Rives کا کہنا ہے کہ ان کے نزدیک یہ کاغذ کا ارتقا نہیں ہے بلکہ اخبار کی ایک نئی نسل معرضِ وجود میں آنے والی ہے۔ اِس سارے عمل کو اخبارات شائع کرنے والے اِنتہائی دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ ان کو اخبارات کی صنعت کے زوال کا دکھ کھائے جا رہا ہے۔