1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اداکار شامی بچہ بھی میزائل حملے کا شکار ہو گیا

صائمہ حیدر1 اگست 2016

شام کے شہر حلب میں اپنی اداکاری سے جنگ اور شامی حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے والا شامی اداکار بچہ بھی میزائل کا ہدف بن گیا۔

https://p.dw.com/p/1JZoO
Im Krieg zerstörte Kulturstätten Aleppo
حلب شہر کبھی ایک منفرد اور متحرک ثقافت کا حامل تھا اور شام کا تجارتی مرکز ہوا کرتا تھاتصویر: picture-alliance/ dpa/dpaweb

حلب کے قدیمی شہر میں پتھروں سے بنے تاریخی گھروں میں سے ایک میں ایک مزاحیہ ڈرامہ سٹیج کیا جا رہا ہے۔ اس میں ایک گھریلو خاتون کو مزاحیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے جو معمولی معمولی باتوں پر اپنے شوہر سے الجھتی رہتی ہے۔ اس کھیل کی دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام کردار بچوں نے نبھائے ہیں۔

یہ کھیل اس شہر میں پیش کیا جا رہا ہے جو شام کی خانہ جنگی میں حکومتی فورسز کے محاصرے میں ہے اور بد ترین میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ ’ام عبدو دی الیپن‘ نامی یہ دلچسپ اور مزاحیہ کھیل پہلی سٹ کام ہے جسے شام میں باغیوں کے زیر تسلط علاقوں سے باہر تشکیل دیا گیا ہے۔ حلب کے ایک مقامی ریڈیو سٹیشن پر اس کھیل کو پہلی بار سن 2014 میں نشر کیا گیا تھا جس میں جنگ سے تباہ حال اس شہر کی زندگی پر ہلکے پھلکے انداز میں روشنی ڈالی گئی تھی۔

اس دلچسپ ڈرامے میں یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح حلب کے رہائشی پانی اور بجلی کی بندش کے ساتھ ساتھ بمباری اور تشدد کی صورت حال سے نمٹتے ہیں۔ پڑوسیوں کے کردار نبھاتے ہوئے اداکار بچوں کے لہجے میں معصومیت جھلکتی ہے۔ تاہم اس ڈرامے کی معصوم اور پر مزاح فضا اس وقت غم و الم میں تبدیل ہو گئی جب اس کھیل میں شوہر کا کردار ادا کرنے والا چودہ سالہ بچہ قسائی ابتینی ایک میزائل حملے کے نتیجے میں ہلاک ہو گیا۔ یہ میزائل اس کار کو لگا تھا، جس میں یہ بچہ حلب سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔

ہنستے مسکراتے چہرے اور گھنے سیاہ بالوں والا ابتینی ایک مشہور مقامی شخصیت بن چکا تھا۔ ابتینی کی زندگی اور موت حلب میں رہنے والوں کے مصائب کی عکاسی کرتی ہے جن کا شہر کبھی ایک منفرد اور متحرک ثقافت کا حامل تھا اور شام کا تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا۔

جنگ کے بعد سے پورا شہر ویران اور تاراج ہو گیا ہے۔ سن 2012 کے موسم گرما سے لے کر اب تک ہزاروں افراد اس لڑائی میں ہلاک ہو چکے ہیں جس میں حلب باغیوں اور حکومت کے زیر تسلط الگ الگ اضلاع میں تقسیم ہو گیا تھا اور دونوں فریق ایک دوسرے سے برسرپیکار ہو گئے تھے۔

Syrien - Rettung eines Jungen nach Bombenangriff
جنگ کے بعد سے پورا حلب شہر ویران اور تاراج ہو گیا ہےتصویر: picture-alliance/AA/I. Ebu Leys

ابتینی کی موت کے کئی روز بعد درجنوں افراد ایک علامتی جنازہ اٹھائے اس کے آبائی ضلعے کی طرف آئے۔ انہوں نے حزب اختلاف کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور ان کے لبوں پر یہ الفاظ تھے، ’’قسائی جنت کو روانہ ہوا۔ میری قوم کا قاتل بشار ہے۔‘‘

حالیہ گولہ باری کے دوران ابتینی کے گھر کو نقصان پہنچا تھا اور اس کا والد زخمی ہو گیا تھا۔ اس کے بعد ہی اس کے والد نے اپنے بچوں کو حلب سے باہر بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ابتینی دس برس کا تھا جب سن 2011 میں صدر بشار الاسد کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج کا سلسلہ شروع ہو تھا۔

ابتینی اپنے بڑے بھائی کے کندھوں پر بیٹھ کر اسد مخالف احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیا کرتا تھا اور اس طرح حزب اختلاف کی ویڈیوز میں صدر بشار الاسد پر تنقید کر کے اور حلب کی تباہ حالی بیان کر کے وہ ان مظاہروں کا اہم حصہ بن گیا تھا۔