1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اردن میں گھرداری سے لائسنس یافہ پلمبر بننے تک

عاطف بلوچ، روئٹرز
25 اکتوبر 2016

سند ملنے کے دن، مریم مطلق امور خانہ داری سنبھالنے والی خاتون سے لائنسس یافتہ پلمبر بننے تک کے سفر پر شاداں ہیں۔ انہوں نے 18 ماہ کا کورس مکمل کیا اور اب وہ دیگر شامی مہاجر خواتین کے ساتھ کاروباری منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/2RfjT
Palästina Landwirtschaft
تصویر: Jamal Saad

مطلق کے ساتھ یہ کورس مکمل کرنے والی دیگر 29 خواتین چہرے پر پردہ کیے ہوئے، اب منصوبہ بنا رہی ہیں کہ کس طرح حاصل کی جانے والی تربیت سے پیسے بنائے جائیں۔ اردن میں خواتین کا یوں گھروں سے نکل کر کام کرنا، وہاں موجود لاکھوں شامی مہاجرین کے لیے بھی ایک طرح سے مشعل راہ ہے۔

41 سالہ مطلق اس بارے میں دیگر خواتین کو کھل کر اپنا نکتہء نظر بتا رہی ہیں۔ وہ پلمبنگ کا کاروبار شروع کرنے والی ہیں۔ اس مقصد کے لیے ان کا منصوبہ یہ ہے کہ اسے لوگ فون کے ذریعے اپنے ہاں پائپوں اور سینیٹری کے کام کے لیے بلا سکیں گے۔ اس کام کے لیے انہوں نے اپنے کاروبار کا نام بھی سوچ لیا ہے، ’چیلنج‘۔ مطلق اپنے کاروبار کے لیے جگہ کا انتخاب بھی کر چکی ہیں۔

مطلق ایک انتہائی قدامت پسند گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ گھر سے نکل کر یہ کورس مکمل کرنا، ان کے لیے واقعی کسی ’چیلنج‘ سے کم نہ تھا۔ تاہم تقریب تقسیم اسناد کے موقع پر جمع افراد میں مطلق کے بچے بھی موجود ہیں، جو اپنی والدہ کی کامیابی پر خوش دکھائی دے رہے ہیں۔ یہی بچے کسی وقت میں مطلق کے گھر سے نکلنے اور یہ کورس مکمل کرنے کے انتہائی خلاف تھے۔

Palästina Landwirtschaft
عرب دنیا میں خواتین کا مخصوص کردار اب رفتہ رفتہ تبدیل ہو رہا ہےتصویر: Jamal Saad

مطلق اور ان جیسی دوسری خواتین کا گھروں سے نکل کر کام کرنے کا یہ فیصلہ انتہائی غیرمعمولی اس لیے ہے کیوں کہ عرب دنیا میں مرد کو کفیل اور خواتین کو گھرداری تک محدود رہنے کا ایک روایتی ڈھانچہ موجود ہے، جس سے لڑنا کوئی آسان کام نہیں۔ جو خواتین ملازمت اختیار بھی کرتی ہیں، وہ زیادہ تر تدریس، نرسنگ یا حکومتی دفاتر میں نچلے درجے کی کلرک کی نوکری کرتی نظر آتی ہیں۔

زرقا شہر سے تعلق رکھنے والی مطلق اور دوسری خواتین کی جانب سے پلمبنگ کا کورس کرنے اور اسی شعبے میں کام کرنے سے اس شہر میں موجود فلسطینی اور شامی مہاجر خواتین کے لیے بھی ایک امید پیدا ہو گئی ہے کہ وہ بھی اسی راستے پر چل کر اپنی آمدن کا ذریعہ پیدا کر سکتی ہیں۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق زرقا میں شام، فلسطین اور عراق سے تعلق رکھنے والے ڈیڑھ لاکھ مہاجرین آباد ہیں، جب کہ اس علاقے میں بے روزگاری کی شرح 24 فیصد ہے۔ اگر خواتین اپنے لیے آمدنی کے نئے ذرائع تلاش کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں، تو نہ صرف یہ مقامی رہائشیوں کی زندگی میں تبدیلی کا باعث ہو گا بلکہ ان ہزاروں مہاجرین کی زندگیاں بھی تبدیل کر دے گا، جو انتہائی محدود آمدنی کی وجہ سے کئی طرح کے مسائل کا شکار ہیں۔