1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل۔حماس چنگ بندی معاہدےکی مدت کا خاتمہ

19 دسمبر 2008

اسرائیل اور حماس کے درمیان چھ ماہ کی مدت کے خاتمے سے خطے میں پریشانی کی لہر پیدا ہو چکی ہے۔ حماس نے مدت کے خاتمے سے فبل ہی راکٹ داغنے شروع کردیئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/GJM8
غزہ پٹی پر انتہاپسند فلسطینی گروپ حماس حکومت کے نمایاں لیڈر اسماعیل ہنیہ جو فلسطین کے سابق وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں۔تصویر: AP

فلسطین کی انتہاپسند تنظیم حماس کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کے سا تھ جنگ بندی معاہدے کی مدت میں توسیع کے امکااننات کوکم دیکھ رہی ہے۔ یہ مدت جمعہ، اُنیس دسمبر کو ختم ہو گی۔ اِس سے پہلے حماس کے جلا وطن راہ نما خالد مشال بھی کہہ چکے ہیں کہ جنگ بندی کی مدت میں توسیع ممکن نہیں اور اُنہوں نے اِس کا سارا ملبہ اسرائیل پر ڈالا ہے کہ وہ معاہدے کا احترام نہیں کر رہا اور غزہ کی ناکہ بندی کو بھی ختم کرنے پر تیار نہیں ہے۔

Sheik Ahmed Yassin, Khalid Mashaal und Mousa Abu Marzook
انتہاپسند فلسطینی گروپ حماس کے لیڈران : شیخ احمد یٰسین ، موسیٰ ابُو مرزوک اور جلا وطن لیڈر خالد مشال : فائل فوٹوتصویر: AP

حماس کی غزہ پٹی پر برسر اقتدار قیادت کے ترجمان Fawzi Barhum نے بھی جنگ بندی معاہدے کے ختم ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ انتہاپسند گروپ نے اِس مناسبت سے ایک اور انتہاپسند گروپ اسلامی جہاد اور دوسرے ایسے چھوٹے گروپوں کے ساتھ میٹنگ کرنے کےبعدکہا ہے کہ جنگ بندی معاہدے میں توسیع کے امکانات انتہائی کم ہیں۔

Israel Verteidigungsminister Ehud Barak Regierungskrise
اسرائیل کے وزیر دفاع: ایہُود باراکتصویر: AP

اِس کے برعکس اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ جنگ بندی کے حق میں ہے۔ غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے کے حوالے سے اسرائیل کا کہنا ہے کہ اُس نے اِس بارے میں پہلے سےکوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔ اسرائیل کے وزیر دفاع ایہود باراک کے مطابق جنگ بندی کا معاہدہ خاصا فائدہ مند تھا۔ باراک نے اسرائیلی اخبار Haaretz کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ خاموشی بہتر تھی اور اگر خاموشی ٹوٹی تو وہ جوابی کارروائی سے گریز نہیں کریں گے۔ باراک کی جانب سے زمینی ایکشن کی بات بھی کی جا رہی ہے جو ضرورت پڑنے پر کی جائے گی۔

فریقین کی با بار کی خلاف ورزی سے جنگ بندی کا معاہدہ پہلے ہی تار تار ہو چکا تھا۔ اِس تمام صورت حال کے باوجود خطے کے ماہرین کے خیال میں جنگ بندی میں توسیع کے امکان کو یکسر ختم نہیں کیا جا سکتا۔

اُنیس جون سن دو ہزار آٹھ کو مصر کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدے طے پایا تھا۔ جس میں یہ طے تھا کہ فلسطینی علاقے سے جنوبی اسرائیل میں راکٹ نہیں داغے جائیں گے اور اسرائیل بھی غزہ پٹی میں فوجی اپریشن جاری نہیں رکھے گا۔ جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی علاقوں پر گاہے گا ہے راکٹ داغے جانے کا سلسلہ جاری رہا اور دوسری طرف اسرائیل بھی فوجی کارروائی سے گریز نہیں کرتا تھا ۔ اب آج سے معاہدہ تو ختم ہو رہا ہے اور دونوں اطراف سے کہہ دیا گیا ہے کہ جارحیت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

Palästinenser Gaza Israel Bank Bargeld wird knapp in Gaza Stadt
غزہ پی کے ایک بازار کی بے رونق سڑکتصویر: AP

غزہ پٹی کی ناکہ بندی کا عمل جون سن دو ہزار سات سے جاری ہے۔ ایسا تب کیا گیا تھا جب انتہاپسند حماس نے غزہ پٹی کا انتضام و انصرام اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ گزشتہ نومبر سے اِس ناکہ بندی کو مزید سخت کردیا گیا جس سے غزہ علاقے میں بحرانی کیفیت پیدا ہے۔ ہر چیز کم یاب ہو چکی ہے۔ کئی انسانی ہمدردی کے ادارے وہاں مصروف ہیں۔

جنگ بندی کے معاہدے کے ختم ہونے سے پہلے ہی خلاف ورزیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے دوران غزہ پٹی سے چالیس راکٹ فائر کئے جا چکے ہیں۔ اسرائیلی جنگی طیاروں کی جوابی کارروائی سے جانی و مالی نقصان کی اطلاع بھی سامنے آ چکی ہے۔

اِسی اثنا میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس امریکہ میں ہیں اور آج امریکی صدر جورج ڈبلیو بُش کے ساتھ ملاقات میں غزہ پٹی کی صورت حال کو بھی زیر بحث لائیں گے۔