1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیلی اسکولوں میں عربی زبان کی تعلیم لازمی

مقبول ملک28 اکتوبر 2015

اسرائیلی پارلیمان نے اتفاق رائے سے ایک فیصلے کے ساتھ ملکی اسکولوں میں بچوں کے لیے عربی زبان کی تعلیم کو لازمی کر دیا ہے۔ ارکان پارلیمان کو امید ہے کہ یوں اسرائیلی عربوں اور یہودیوں کے تعلقات کو بہتر بنایا جا سکے گا۔

https://p.dw.com/p/1GwEm
Bildergalerie Kinder Lesen und Schreiben lernen
تصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb

یروشلم سے بدھ اٹھائیس اکتوبر کی شام ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق پارلیمان میں منظور کی گئی قرارداد کے مطابق ملک کے تمام اسکولوں میں آئندہ چھ سال کی عمر سے بچوں کے لیے عربی زبان سیکھنا لازمی ہو گا۔

’کنیسیٹ‘ کہلانے والی اسرائیلی پارلیمان نے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت پر کیا ہے جب مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں مظاہروں، جھڑپوں، فلسطینیوں کی طرف سے چاقوؤں کے ساتھ کیے جانے والے حملوں اور اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں حالیہ ہفتوں کے دوران نہ صرف اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین شدید کشیدگی پائی جاتی ہے بلکہ یہی بدامنی دونوں طرف سے مجموعی طور پر اب تک درجنوں افراد کی جانیں بھی لے چکی ہے۔

اے ایف پی کے مطابق کنیسیٹ کے آج کے اجلاس کے دوران حاضر ارکان کی تعداد نصف سےز ائد تھی اور انہوں نے اس بارے میں ایک مسودہ قانون پر پہلی بحث کے دوران ہی اس کی متفقہ رائے سے منظوری دے دی۔

اب اس مسودہ قانون کو جائزے کے لیے پارلیمان کی ایک خصوصی کمیٹی کے پاس بھیجا جائے گا، جس کے بعد دوسری مرتبہ رائے شماری کے لیے یہی قانونی مسودہ ایک بار پھر پوری کنیسیٹ میں زیر بحث آئے گا۔

عربی اور عبرانی دونوں ہی اسرائیل کی سرکاری زبانیں ہیں لیکن اسرائیلی عربوں کی ایک بہت بڑی اکثریت تو عبرانی زبان بولتی ہے تاہم اسرائیل کی یہودی اکثریتی آبادی میں عربی زبان زیادہ نہیں بولی جاتی۔

ملکی پارلیمان میں یہ قانونی بل وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی دائیں بازو کی جماعت لیکوڈ پارٹی کے ایک رکن اورَین ہازان کی طرف سے پیش کیا گیا، جنہوں نے کہا کہ اس مسودے کی تیاری اور منظوری کا مقصد یہ بھی ہے کہ ان عرب ملکوں کے ساتھ رابطوں کو بہتر بنایا جائے، جو اسرائیل کے اتحادی ہیں۔

Israel Knesset Oktober 2014
اسرائیلی پارلیمان نے اس بارے میں مسودہ قانون کی منظوری متفقہ رائے سے دیتصویر: picture-alliance/dpa/EPA/Kobi Gideon

اورَین ہازان نے اس بل کی منظوری کے بعد اے ایف پی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’زبان ثقافت کا دروازہ ہوتی ہے۔ میں حقیقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ ایسا کوئی ممکنہ راستہ ہے ہی نہیں کہ ایک دوسرے کو سمجھے بغیر (اسرائیل اور عربوں کے مابین) قیام امن کی منزل حاصل کی جا سکے۔‘‘

اسرائیلی عرب، جو 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد اسرائیل ہی میں رہ جانے والے فلسطینیوں کی موجودہ نسل سے تعلق رکھتے ہیں، اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ انہیں اسرائیل میں اپنے خلاف امتیازی رویوں کا سامنا رہتا ہے۔ اسرائیل کی مجموعی آبادی میں عربوں کا تناسب قریب 18 فیصد ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں