1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیلی بری فوج کی لبنان میں مزید پیش قدمی

24 جولائی 2006

امریکہ نے اسرائیلی لبنانی تنازعے میں فائر بندی کے متعدد مرتبہ کئے جانےوالے مطالبے کی مشروط تائید کر دی ہے۔ تاہم وزیرِ خارجہ کونڈولیزا رائس نے کہا کہ فائر بندی کا اعلان محض ایک عارضی حل ہو گا اور سیاسی سطح پر اِس تنازعے کی اصل وجوہات کو حل کیا جانا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/DYKk
بر سرِ پیکار اسرائیلی فوجی
بر سرِ پیکار اسرائیلی فوجیتصویر: AP

امریکی وزیرِ خارجہ رائس ایک اچانک دورے پر لبنان کے دارالحکومت بیروت پہنچ گئی ہیں۔ Rice لبنانی سربراہِ حکومت فواد سِنیورا کےساتھ مذاکرات کے بعد اسرائیلی وزیرِ اعظم ایہود اولمرٹ کےساتھ صلاح و مشورے کےلئے یروشلم جانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

اِسی دوران ایہود اولمرٹ نے تنازعے کے حل کےلئے جنوبی لبنان میں ایک بین الاقوامی امن دَستے کی تعیناتی کو قابلِ قبول قرار دیا ہے۔ تاہم جرمن وزیرِ خارجہ فرانک والٹر شٹائن مایر کے ساتھ ایک ملاقات کے موقع پر اولمرٹ نے کہا، شرط یہ ہے کہ اِس دَستے کو یورپی یونین کے ممالک منظم کریں۔

دریں اثناءاسرائیلی فوج جنوبی لبنان میں اور آگے بڑھتی جا رہی ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق بری دَستے آہستہ آہستہ بندرگاہی شہر Tirus سے جنوب کی طرف واقع مقامات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ لبنان میں جزوی طور پر شدید جھڑپیں ہوئی ہیں، جن کے دوران حزب اللہ ملیشیا کے راکٹ فائر کرنےوالے ٹھکانوں کو کامیابی کے ساتھ تباہ کر دیا گیا۔

اِس سے پہلے سرحد پر واقع ایک گاﺅں سے لبنانی حزب اللہ ملیشیا کے دو جنگجو پکڑے گئے، جنہیں اسرائیل پہنچا دیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ بارہ روز پہلے جنگ شروع ہونے کے بعد سے یہ پہلے جنگی قیدی ہیں۔

اُدھر غزہ پٹی میں بھی انتہا پسند فلسطینیوں کے اسلحے کے مبینہ ذخائر پر اِکا دُکا حملوں میں کم از کم پانچ افراد مارے گئے ہیں۔

اِدھر آج پندرہ بحری جہاز لبنان کے مزید مہاجرین کو لےکر بحیرہ ِ روم کے جزیرے قبرص پر پہنچ رہے ہیں، جہاں گذشتہ دِنوںکے دوران پہلے ہی 30 ہزارسے زیادہ لبنانی مہاجرین پہنچ چکے ہیں۔

جرمنی مشرقِ وُسطےٰ کےلئے ایک امن دَستے اوراُس میں جرمنی کی شرکت کے سلسلے میں بدستور محتاط طرزِعمل اختیارکئے ہوئے ہے۔ جرمن وَزارتِ خارجہ میںاسٹیٹ سیکریٹریGernort Erler نے کہا کہ عمومی طور پر پہلے اقوامِ متحدہ کی طرف سے ایسے کسی دَستے کی تشکیل کا فرض سونپا جانا چاہیے اور پھر اسرائیل اور لبنان کو بھی اِس دَستے کی تعیناتی پر رضامندی ظاہر کرنا ہو گی۔

وزیرِ دفاع فرانس یوزیف ژُنگ نے کہا کہ جرمنی اِس دستے میں شرکت سے گریز نہیں کر سکتا لیکن اِس کےلئے پہلے یرغمالی اسرائیلی فوجیوں کی رہائی اور فائر بندی عمل میں آنی چاہیے۔ اِس کے بعد یہ جانچنا ہو گا کہ کس شکل میں مدد کی جا سکتی ہے۔

بائیں بازو کی جماعت Linkspartei کی پارلیمانی حزب کے قائد گریگور گیزی نے کسی ممکنہ مشرقِ وُسطےٰ محافظ دَستے میں جرمنی کی شرکت کو مسترد کر دیا ہے۔ گیزی نے کہا کہ جرمنوں کے ہاتھوں کئی ملین یہودیوں کے قتل کے بعد جرمن فوجیوں کو نہ تو کسی ناپائیدار فائر بندی کی نگرانی کیلئے اور نہ ہی امن کے قیام کےلئے اسرائیل کے سامنے جانا چاہیے۔