1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیلی وزیر اعظم کا دو ریاستی حل کےبارے پالیسی اعلان

رپورٹ : کشور مصطفیٰ / ادارت: عابد حسین15 جون 2009

امریکی صدرمشرق وسطیٰ کے تنازعے کے حل کے حوالے سے دو ریاستوں کو تشکیل کے حامی ہیں۔ موجودہ دائیں بازُو کی اسرائیلی حکومت فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالف ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کا پالیسی اعلان کئی حوالوں سے خاصا اہم ہے۔

https://p.dw.com/p/I9MY
اسرائیلی وزیر اعظم، تل ابیب کے نواح میں واقع ایک یونی ورسٹی میں اہم پالیسی تقریر کرتے ہوئے۔تصویر: AP

امریکی صدر باراک اوباما نے سخت گیر موقف رکھنے والے اسرائیلی وزیر اعظم بنیا مین نیتن یاہو کی طرف سے فلسطینی ریاست کے قیام پر آمادگی کے اظہار کا خیر مقدم کیا ہے۔ اوباما کے مطابق یہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی جانب ایک اہم قدم ہے۔

تاہم نیتن یاہو نے فلسطینی ریاست کے قیام پر آمادگی کی کڑی شرائط رکھی ہیں۔ مثلاً نیتن یاہو نے کہا ہے کہ مستقبل کی فلسطینی ریاست غیر مسلح ہونے چاہیے جس کی نہ اپنی کوئی فوج نہ اسے اپنی فضائی حدود پر کنٹرول حاصل ہو۔ اتوار کی شام اسرائیل کی قومی سلامتی کے حوالے سے ایک اہم پالیسی تقریر کرتے ہوئے نیتن یاہو نے پہلی بار مشرق وسطیٰ کے دیرینہ تنازعہ کے حل کے لئے دو ریاستی حل کی باقائدہ حمایت کی تاہم انھوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ فلسطینی ریاست کو اسرائیل کے کھلے دشمن ملک ایران کے ساتھ ہر قسم کے معاہدے سے باز رہنا ہوگا۔

Barack Obama landet in Dresden
امریکی صدر اوباماتصویر: AP

صدر محمود عباس کی قیادت والی فلسطینی حکومت نے نیتن یاہو کے پالیسی خطاب کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ صدر محمود عباس کے ایک قریبی ساتھی اور چوٹی کے حکومتی اہلکار رفیق الحسینی نے اسرائیلی وزیر اعظم کے پالیسی خطاب کو قیام امن کی کوششوں کی نفی کرنے والے ایک جنگی اعلان سے تعبیر کیا ہے۔

رفیق الحسین کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو نے اپنے خطاب میں یہ کہا ہے کہ فلسطینیوں کو انکی ریاست نہیں ملے گی کیونکہ انھوں نے ایسی شرائط رکھی ہیں جو ناقابل قبول ہیں۔ نیتن یاہو نے دو ریاستی حل کے ان تمام مطالبات کو رد کردیا ہے جو ساری دنیا اسرائیل سے کر رہی ہے۔ یعنی عالمی برادری اسرائیل سے کہہ رہی ہے کہ فلسطینی ریاست غرب اردن اور غزہ کے علاقے میں ہونی چاہئے جس میں یروشلم بھی شامل ہواور پناہگزینوں کے مسائل کا منصفانہ اور جائز حل تلاش کیا جانا چاہئے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے ان تمام مطالبات کو رد کردیا ہے۔ اب انہیں نہ صرف فلسطینیوں، عربوں بلکہ تمام دنیا کا سامنا کرنا ہوگا۔

Benjamin Netanjahu - Rede am 14.06.2009
اسرائیلی وزیر اعظم کی تقریر اسرائیل کے اندر ٹیلی ویژن نیٹ ورک پر دکھائی جا رہی ہے۔تصویر: AP

انتہاپسند تنظیم حماس کے ترجمان اسامہ حمدان نے بھی نیتن یاہو کے بیانات کی سخت مذمت کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس کے ردِ عمل کے طور پر فلسطینی مزید مزاحمت کا رستہ اختیار کریں گے۔

اسامہ حمدان نے الجزیرہ ٹیلی ویژن نیٹ ورک پر ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو کی تقریر سننے کے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ فلسطینی حماس کے راستے کا انتخاب ہی کریں گے۔ نیتن یاہونے فلسطینیوں کے لئے غیر معمولی اہمیت کے حامل متعدد معاملات کے بارے میں صیہونی اندازمیں باتیں کیں۔ نیتن یاہوایک بار پھر فلسطینیوں پر اسرائیل کا غلبہ چاہتے ہیں تاکہ اسرائیل فلسطینیوں کی زندگی، انکی معیشت کو اپنے کنٹرول میں رکھے اور ایک ایسی فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آئے جس کی نہ تو فوج ہو، نہ ہی اسکے پاس اسلحہ ہو، نہ ہی کسی دوسرے ملک کے ساتھ عسکری تعلقات ہوں۔ یعنی اس کے پاس خود کے دفاع کی بھی کوئی صلاحیت نہ ہو۔

اپنی پالیسی تقریر میں اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ وہ امن کی خاطرعرب رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کے لئے کہیں بھی جا سکتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یروشلم کی تقسیم پر مذاکرات بعید از اِمکان ہیں اور متحدہ یروشلم ہی اسرائیل کا دارلحکومت رہے گا۔ اسرائیل کا دیرینہ موقف دہراتے ہوئے نیتن یاہو نے کہا کہ فلسطینی پناہ گزینوں کو واپس اپنے آبا و اجداد کی زمین پر دوبارہ آباد ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔