1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل تکلیف دہ سمجھوتے کرنے پر تیار ہے، نیتن یاہو

25 مئی 2011

اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نےکہا ہے کہ اسرائیل دیرپا امن کے لیےکچھ یہودی بستیاں چھوڑنے پر تیار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس تکلیف دہ سمجھوتے پر راضی ہونے کے باوجود وہ 1967ء کی سرحدیں تسلیم نہیں کریں گے۔

https://p.dw.com/p/11NZ8
تصویر: AP

امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ 1967ء کی سرحدیں ناقابل دفاع ہیں اور اسی وجہ سے یہ تجویز کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم، جس وقت امریکی کانگریس پہنچے تو ارکان نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔

اس موقع پر نیتن یاہو کا کہنا تھا، ’’میں تکلیف دہ سمجھوتے کرنے پرآمادہ ہوں۔ مغربی کنارے سے کچھ یہودی آبادیاں ختم کرنے پر تیار ہوں لیکن باقی بستیاں قائم رہیں گی، چاہے وہ سرحد سے باہر ہوں۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے، ’’یہ میرے لیے آسان نہیں ہے کیونکہ یہ امر مجھ پر واضح ہو گیا ہے کہ امن کی خاطر اسرائیل کو اپنی آبائی زمین کے کچھ حصے دینے پر تیار رہنا ہو گا۔‘‘

Benjamin Netanjahu USA
1967ء کی سرحدیں تسلیم نہیں، اسرائیلی وزیراعظمتصویر: picture alliance/dpa

اپنے خطاب میں نیتن یاہو نے کہا کہ اصل تنازعہ فلسطینی ریاست کے قیام پر نہیں بلکہ اصل مسئلہ فلسطینیوں کی جانب سے ایک یہودی ریاست کو تسلیم کرنے کا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ بات چیت کے ذریعے ہی ان مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس دوران نیتن یاہو نے کسی طرح کی ٹھوس رعایتوں کا اعلان نہیں کیا بلکہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے سخت شرائط بیان کیں۔

اسرائیلی وزیراعظم نے امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے یہ خطاب اپنے پانچ روزہ دورہء امریکہ کے آخری روز کیا۔ اس سے قبل امریکہ میں اسرائیل نواز گروپAIPAC سے اپنے خطاب میں انہوں نے مشرق وسطیٰ تنازعے کے حل کے حوالے سے واشنگٹن حکومت کی نئی تجاویز کو مسترد کر دیا تھا۔

Benjamin Netanjahu Premierminister Israel
میں تکلیف دہ سمجھوتے کرنے پر آمادہ ہوں، نیتن یاہوتصویر: dapd

نیتن یاہو نے مزید کہا کہ کسی بھی سمجھوتے میں آبادی کے تناظر میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا خاص خیال رکھا جانا چاہیے۔ اس سے ان کا اشارہ ان بستیوں کی جانب تھا، جو گزشتہ برسوں کے دوران یروشلم حکومت کی جانب سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں قائم کی گئی ہیں۔ سال رواں کے دوران ان یہودی بستیوں کی تعمیر کے خلاف اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی ایک قرارداد کو امریکہ نے ویٹوکر دیا تھا۔

فلسطینی انتظامیہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ نتین یاہو نے تنازعے کو ختم کرنے کی بات تو کی ہے لیکن اصل میں انہوں نے مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے۔ ترجمان نے اس خطاب کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو کے خطاب کا قیام امن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک فلسطینی تجزیہ کار حانی مصری نے کہا کہ نیتن باہو نے اپنے خطاب سے فلسطینیوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ انہیں سب کچھ دینے پر تیار رہنا چاہیے اور ان کےحصے میں زمین کا کچھ ہی حصہ ہی آئے گا۔

رپورٹ : عدنان اسحاق

ادارت : ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں