1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل میں اونچی آواز میں اذان دینے پر پابندی کا بِل

17 نومبر 2016

اسرائیل میں لاؤڈ اسپیکروں پر اذان دینے پر پابندی کے بِل کے خلاف فلسطینی مسلمانوں کی طرف سے شدید غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے مطابق تمام مذاہب کے لوگوں نے ’اذان کے شور‘ کے حوالے سے شکایات کی ہیں۔

https://p.dw.com/p/2Sq3B
Jerusalem Altstadt
تصویر: Getty Images/AFP/M.Kahana

اسرائیلی مساجد میں لاؤڈ اسپیکروں کے ذریعے اذان دینے پر پابندی کی حمایت ملکی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی طرف سے بھی کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم نے اس تجویز کو ’زندگی کے معیار‘ کو بہتر بنانے کی کوششوں کا رنگ دیا ہے لیکن اسرائیل کی عرب مسلم اقلیت میں یہ احساس تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے کہ انہیں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔

اسرائیلی پارلیمان میں عرب سیاسی جماعتوں کے سربراہ ایمن عودہ کا کہنا تھا، ’’نماز کے لیے اذان نسل پرستوں سے پہلے بھی تھی اور یہ نسل پرستوں کے بعد بھی رہے گی۔‘‘

ابتدائی طور پر اس بل کو اسرائیلی وزراء کی ایک کمیٹی کی حمایت حاصل ہو گئی ہے، جس میں اسرائیل کی تمام مساجد میں اذان کی آواز کم کر دینے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس بل کی حمایت کرنے والی ایک مذہبی جماعت کے قوم پرست یہودی قانون ساز کا وضاحت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس مسودہ قانون کے ذریعے مساجد کے لاؤڈ اسپیکروں کو ہدف بنایا جائے گا۔ اسی وجہ سے اس بل کو ’موذن بل‘ بھی کہا جا رہا ہے۔

Israel Jerusalem Knesset Parlament
تصویر: Reuters/R. Zvulun

اس بل کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ آج کل فجر کی اذان صبح پانچ بجے کے قریب ہوتی ہے اور مساجد کے قریب رہائش پذیر یہودیوں کی نیند میں خلل پڑتا ہے۔ وزیر اعظم نیتن یاہو کا رواں ہفتے کابینہ کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میں تعداد شمار نہیں کر سکتا لیکن ایسا متعدد مرتبہ ہوا ہے۔ تمام مذاہب اور معاشرے کے تمام طبقات کے لوگوں نے مجھ سے رابطہ کیا ہے۔ انہوں نے اس شور کی شکایت کی ہے۔‘‘

دوسری جانب فلسطینی اور عرب شہری اس اقدام کو بےتوقیری اور اسرائیلی معاشرے اور ملکی قیادت کے بڑھتے ہوئے غیر دوستانہ رویے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔  عرب شہری اسرائیل کی آبادی کا پانچواں حصہ بنتے ہیں۔ یہ اسرائیلی یہودیوں کے مقابلے میں اوسطاﹰ کم لکھے پڑھے ہیں اور انہیں ملازمتوں کے مواقع بھی کم دستیاب ہوتے ہیں جبکہ بہت سے اسرائیلی سیاستدان ان کی حب الوطنی پر بھی شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔

گزشتہ برس اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ملک کے عرب نسل کے ووٹروں کے بارے میں کہا تھا، ’’مویشی پولنگ کے لیے جا رہے ہیں۔‘‘ اس جملےکو نسل پرستانہ سوچ کا مظہر قرار دیا گیا تھا اور بعد ازاں اسرائیلی وزیر اعظم نے اس پر معافی بھی مانگ لی تھی۔

اسرائیل کے لبرل اخبار ’ہارٹز‘ کے تجزیہ کار زووی بیرل نے لکھا ہے، ’’اسرائیلی لبرل، چاہے وہ یہودی ہوں یا عرب، اس شاندار بل کی حمایت نہیں کر سکتے کیوں کہ اس کا مقصد مسلمانوں کو نقصان پہنچانا ہے۔‘‘

بدھ کے روز اس بل پر ووٹنگ اس وقت روک دی گئی تھی، جب انتہائی قدامت پسند یہودی قانون سازوں نے ایسے خدشات کا اظہار کیا تھا کہ اس کے تحت ان کی طرف سے سائرن بجانے کو بھی روکا جا سکتا ہے۔

ان یہودی قانون سازوں کا کہنا ہے کہ وہ اس بل کی حمایت اس وقت کریں گے، جب اس بل میں یہودیوں کو سائرن بجانے کی اجازت دی جائے گی۔