1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل پر حزب اللہ کے ریکارڈ توڑ حملے ایک اسرائیلی ہلاک

2 اگست 2006

تمام تر بین الاقوامی کوششوں کے باوجود حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ نہ صرف جاری ہے بلکہ روز بروز اس میں شدت آتی جا رہی ہے۔ یورپی یونین گزشتہ روز اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود لبنان میں فوری جنگ بندی پر متفق نہیں ہو سکی جبکہ دوسری طرف کل سے ملیشیا میں شروع ہونے والے OIC کے ہنگامی اجلاس میں اسلامی دنیا کی طرف سے پہلی مرتبہ لبنان کے حق میں بھرپور آواز اٹھائی جا رہی ہے اور توقع ہے کہ لبنان میں فوری جنگ بندی کا مطالب

https://p.dw.com/p/DYKT
تصویر: AP

ہ کیا جائے گا۔

حزب اللہ نے آج اسرائیل کے شمالی علاقوں میں 160 سے زیادہ راکٹ فائر کیے ہیں ۔عینی شاہدین کا کہناہے کہ حزب اللہ نے پہلی مرتبہ مغربی کنارے کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ ادھر لبنان کے بحران پر قابو پانے کے لئے عالم اسلام کی طرف سے بھی باقاعدہ کوششیں شروع ہو گئی ہیں۔ آج اسی سلسلے میں ملیشیا میں اسلامی کانفرنس تنظیم OIC کا ایک ہنگامی اجلاس شروع ہو رہا ہے جس میںشرکت کے لئے پاکستان کے وزیر اعظم شوکت عزیز اور ایرانی صدر محمود احمدی نژاد بھی ملیشیا روانہ ہو گئے ہیں۔

ملیشیا نے کہا ہے کہ اس اجلاس میں لبنان میں فوری طور پر جنگ بند ی کا مطالبہ سامنے آنے کی توقع ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ OIC کے پاس یہ ایک اچھا موقع ہے کہ وہ لبنان کے بحران کے حل کے لئے کوئی مو¿ثر کردار اداکر کے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کر لے۔

لیکن اگر او آئی سی اس مرتبہ بھی صرف مذمتی بیان جاری کرنے اور فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کرنے پر اکتفا کرتی ہے تو گویا اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ اپنے روائتی کردار سے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہے۔

بہرحال اس وقت یورپی اور اسلامی دنیا لبنان کے مسئلے پر پورے طور پر تقسیم ہو چکی ہے اور دونوں اقوام کو قریب لانے کے لئے کسی مشترکہ اصول کو سامنے لانے کی ضرورت ہے جس پر دونوں بلاک متفق ہو سکیں اور تصادم کی موجودہ کیفیت ختم ہو سکے۔

ادھر جرمنی کے سابق وزیر خارجہ یوشکا فشر تہران میں ، ایرانی حکام کے ساتھ مشرق وسطی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں ۔ انہوں نے تہران میں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان فوری جنگ بندی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

انہوں نے مشرق وسطی کے بحران کے حل میں ایران کے کردار کو اہم قرار دیتے ہوئے ایران اور حزب اللہ کے درمیان قریبی تعلقات کی طرف اشارہ کیا اور کہا :ایران نے اس بات کو نہیں چھپایا ہے کہ اس کے حزب اللہ سے گہرے روابط ہیں اور علاقے میں اس کے بہت زیادہ مفادات ہیں۔میرے خیال میں ایران لبنان کے بحران میں مثبت اور منفی دونوں قسم کا کردار ادا کر سکتا ہے لہٰذا ایران سے رابطہ برقرار رکھنا ضروری ہے۔