1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلحےکی عالمی تجارت: امریکہ اور روس سب سے آگے

آندریاس سُو ماخ / شہاب احمد صدیقی28 اپریل 2009

سويڈن کے امن پر تحقيق کے انسٹیٹيوٹ SIPRI کا يہ انکشاف بہت حيران کن ہے کہ گذشتہ پانچ برسوں ميں دنيا بھر ميں اسلحے کی برآمد ميں زبردست اضافہ ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/HfWk
زمینی اور فضائی ہتھیار، دونوں کی برآمد میں اضافہتصویر: picture-alliance/ dpa

دنيا ميں شايد کوئی بھی کاروبار اتنا زيادہ منافع بخش نہيں ہے جتنا کہ جنگ، تباہی اور موت کے سامان کی تجارت۔ مختلف سياستدانوں کے ايسے بيانات کی کمی نہيں ہے کہ ہتھياروں کی اس امن دشمن تجارت کو قابو ميں لايا جانا چاہئے۔ ليکن ان بيانات کی قيمت اس کاغذ کے بھی برابر نہيں ہےجن پر وہ لکھے جاتے ہيں۔

اس کا اظہار ايک بار پھر سٹاک ہولم کے امن پر تحقيق کرنے والے انسٹيٹيوٹ SIPRI کی حاليہ رپورٹ سے ہوتا ہے جس ميں پچھلے پانچ برسوں کے دوران ہتھياروں کی عالمی برآمدات کا جائزہ ليا گيا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس سے پچھلے پانچ برسوں، يعنی 1999 سے لے کر 2003 تک کے مقابلے ميں اسلحے کی برآمدات ميں 21 فيصد کا اضافہ ہوا۔ يہ اضافہ سن 1950 کے بعد سے سب سے بڑا اضافہ ہے جب SIPRI نے اپنی پہلی رپورٹ پيش کی تھی۔

سويڈن کے اس انسٹيٹيوٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ ميں ہتھياروں کی برآمدات ميں سن 2004 سے لے کر سن 2008 تک کے درميانی عرصے میں 38 فيصد کا اضافہ ہوا۔ سب سے زيادہ اسلحہ امريکہ نے برآمد کيا ليکن فرانس نے بھی بڑی مقدار ميں ہتھيار فروخت کئے۔

Schweden Logo Friedensforschungsinstitut SIPRI
سویڈن میں قائم ادارہ برائے تحقیق امن کا لوگو

خاص طور سے تشويش کی بات يہ ہے کہ ان علاقوں اور ملکوں ميں ہتھياروں کی درآمد ميں سب سے زيادہ اضافہ ہوا جہاں کشيدگی اور جنگ کا خطرہ سب سے زيادہ ہے يا جہاں پہلے ہی سے ممکنہ جنگ کے سے حالات پائے جاتے ہيں۔

مشرق وسطیٰ ميں سب سے زيادہ اسلحہ مصر اور اسرائيل کو مل رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے سن 2004 سے لے کر سن 2008 کے درميان دنيا کی اسلحے کی مجموعی برآمدات کا چھ فيصد حصہ درآمد کيا۔ يہ جنوبی کوريا کی اسلحے کی درآمدات کے برابر ہے ۔

اس سے پہلے کے پانچ سالہ جائزے ميں متحدہ عرب امارات دنيا ميں اسلحہ کی درآمد کے سلسلے ميں 16ویں نمبر پر تھا ليکن موجودہ پانچ سالہ رپورٹ کے مطابق اب وہ فوجی سازوسامان کی درآمد کی عالمی فہرست ميں تيسرے نمبر پر ہے ۔ اس نے سن ‍2004 سے لے کر سن 2008 تک کے درميان امريکہ سے F-16 قسم کے 80 لڑاکا طيارے خريدے۔ اس کے علاوہ اس نے فرانس سے بھی 50 ميراج لڑاکا طيارے خريدے۔

SIPRI کے مطابق متحدہ عرب امارات نے ہتھيار خاص طور سے ايران سے خطرے کی وجہ سے خريدے ہيں حالانکہ اس نے منظر عام پر اس کی کوئی وجہ ظاہر نہیں کی ہے۔ دنيا ميں سب سے زیادہ اسلحہ چين درآمد کرتا ہے۔ دوسرے نمبر پر بھارت ہے۔

SIPRI نے جن 192 ملکوں کا جائزہ ليا ہے ان ميں سے جرمنی اس لحاظ سے نماياں ہے کہ سن 2003 سے اس کی اسلحے کی برآمدات ميں 70 فيصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح وہ فوجی سازوسامان کے دنيا کے سب سے بڑے برآمد کنندگان امريکہ اور روس کے قريب پہنچ چکا ہے اور اس نے برطانيہ اور فرانس پر سبقت حاصل کرلی ہے۔