1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلحے کے شعبے میں مغربی یورپ اور امریکا کا غلبہ

عدنان اسحاق14 دسمبر 2015

امن پر تحقیق کے سویڈش ادارے ’سپری‘ کے مطابق گزشتہ برس شمالی امریکا اور مغربی یورپ کی اسلحہ ساز کمپنیوں کے ہتھیار دنیا بھر میں سب سے زیادہ فروخت ہوئے۔ سپری کی اس نئی رپورٹ میں اس تناظر میں مزید انکشافات بھی کیے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HMrF

ا من پر تحقیق کرنے والے سویڈش ادارے سپری نے 2014ء میں اسلحے کے کاروبار سے متعلق اپنی نئی رپورٹ جاری کر دی ہے۔ اس میں بتایا گیا کہ اسلحے و فوجی ساز وسامان بنانے والے دنیا کے سو بڑے اداروں کی فروخت 365 ارب یورو کے برابر رہی، جو 2013ء کے مقابلے میں 1.5 فیصد کم ہے۔ سپری کے مطابق گزشتہ برس بھی اس شعبے پر شمالی امریکی اور مغربی یورپی کمپنیوں کا ہی غلبہ رہا تاہم عالمی منڈی میں ان کے بنائے ہوئے ہتھیاروں کی مانگ میں کمی ہوئے ہے۔ آج پیر کے روز جاری کی جانے والی اس رپورٹ میں اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ روس اور کئی ایشیائی ممالک اسلحہ سازی کے میدان میں آگے آئے ہیں۔

یہ مسلسل چوتھا برس ہے جب دنیا کی سو بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں اور عسکری اداروں کے کاروبار میں گراوٹ آئی ہے۔ اس سلسلے میں امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن وہ واحد ادارہ ہے کہ جسے گزشتہ برس کے دوران اندازاً 3.9 فیصد کا نفع ہوا ہے۔ اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ کل مارکیٹ شیئر کا اسی فیصد مغربی یورپی اور امریکی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہی ہے۔ سپری کے زیمون ویزیمن کے مطابق، ’’روسی اسلحہ ساز اداروں کے عروج کی وجہ ملکی دفاعی اخراجات میں اضافہ اور برآمدات ہے۔‘‘

Symbolbild SIPRI Militärausgaben Bericht 2014
تصویر: picture-alliance/dpa

اس رپورٹ کے مطابق 2013ء اور 14ء کے دوران گیارہ روسی اداروں کی سالانہ مشترکہ آمدنی میں کل 48.4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان میں سب سے آگے روسی کمپنی الماز آنٹے رہی، جس کی آمدنی تقریباً نو ارب ڈالر تھی۔ یہ کمپنی بُک میزائل بھی بناتی ہے، جس کے ذریعے مبینہ طور پر ملائشیئن ایئر لائن کے مسافر بردار طیارے کو گرایا گیا تھا۔ روسی اسلحہ کا ایک بڑا حصہ روسی فوج کو ہی فروخت کیا گیا۔ اس کے ساتھ چین اور بھارت بھی روسی اسلحے کے بڑے خریدار ہیں۔ ویزےمن کے مطابق، ’’عام طور پر روسی کہتے ہیں کہ رقم ادا کرنے کے بعد ہی اسلحہ مہیا کیا جائے گا ورنہ نہیں‘‘۔

دوسری جانب یوکرائنی اسلحے کی فروخت میں37 فیصد سے زائد کی کمی آئی ہے۔ ویزیمن کے بقول،’’ مشرقی یوکرائن میں تنازعے اور قومی کرنسی کی قدر میں شدید کمی اس کی وجوہات میں شامل ہیں‘‘۔ یوکرائن کی سرکاری کمپنی 2013ء میں اس فہرست میں 58 ویں نمبر پر تھی جبکہ 2014ء میں اسلحے کی فروخت کی فہرست میں اس کا نمبر 90واں ہو گیا ہے۔

اس کے علاوہ اسلحہ سازی کے سو بڑے اداروں کی فہرست میں دو ترک اور جنوبی کوریا کی ایک کمپنی سمیت ایشیا کی کل پندرہ کمپنیوں نے جگہ بنائی ہے۔