1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسٹوڈنٹ آسکر ایوارڈز، جرمن فلم سازوں کے نام

امتیاز احمد18 ستمبر 2015

اسٹوڈنٹ اکیڈمی ایوارڈز کی لاس اینجلس میں ہونے والی تقریب میں غیر ملکی فلموں کی کیٹیگری میں جرمن فلم ساز اِیلکر چاتک کو گولڈ میڈل سے نوازا گیا ہے۔ ایک نوجوان فلم ساز کے طور پر تمام تین ایوارڈ اِیلکر کے حصے میں آئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GYVl
Deutschland Filmregisseur Ilker Catak Studenten-Oscar
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kreuser

یاد رہے کہ اسٹودنٹ آسکرز ایوارڈ نوجوان فلم سازوں کی حوصلہ افزائی اور ان کے بہترین کارگردگی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے۔ چاتک نے ہیمبرگ میڈیا اسکول میں گریجویشن کے لیے تھیسس کے طور پر ٰفیڈیلٹی (صداقت)‘ نامی فلم تیار کی تھی۔ اسی فلم کو ناقدین نے بھرپور تعریف اور توصیف سے نوازا ہے۔ چاتک نے امریکا کے باہر رہتے ہوئے اس کٹیگری میں ٹاپ پوزیشن حاصل کی ہے جبکہ دوسری پوزیشن بھی ایک جرمن ہی کے حصے میں آئی ہے۔

دوسرے نمبر پر آنے والے اسٹوڈنٹ کا نام ڈوسٹن لوزے ہے اور ان کا تعلق جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ اکیڈمی سے ہے۔ ان کی فلم کا نام ’دا لاسٹ وِل (آخری خواہش) ہے۔ اسی طرح تیسری پوزیشن جرمن صوبے لوئیر سیکسنی کے رہائشی فلم ساز نوجوان پیٹرک فل راتھ کو حاصل ہوئی ہے۔ ان کی فلم کا نام ’ایوری تِھنگ وِل بی او کے‘ ہے لیکن ان کا تعلیم آسٹریا کی ویانا فلم اکیڈمی سے ہے۔

Dustin Loose Studenten Oscar Filmakademie Baden-Würtemberg
دوسرے نمبر پر آنے والے اسٹوڈنٹ کا نام ڈوسٹن لوزے ہے اور ان کا تعلق جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ اکیڈمی سے ہےتصویر: picture-alliance/dpa/Andreas Schlieter

ترک نژاد اِیلکر چاتک کی پیدائش برلن میں ہوئی تھی لیکن وہ بعد ازاں استنبول میں مقیم رہے۔ ایلکر نے ٹی وی اور فلم پروڈکشن کی ابتدائی تعلیم بھی برلن سے حاصل کی اور پھر اِسی شعبے میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہیمبرگ میڈیا اسکول میں داخلہ لے لیا۔

Patrick Vollrath Regisseur Studenten Oscar Hamburg
تیسری پوزیشن جرمن صوبے لوئیر سیکسنی کے رہائشی فلم ساز نوجوان پیٹرک فل راتھ کو حاصل ہوئی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/Georg Wendt

ایلکر چاتک کی فلم کا ترک زبان میں نام ’صداقت‘ رکھا گیا ہے اور یہ ترکی کے سن دو ہزار چودہ کے سیاسی بحران کے دوران فلمائی گئی تھی۔ اس فلم کی کہانی اس خاتون نوجوان ڈاکٹر کے گرد گھومتی ہے، جو استنبول میں ایک سیاسی کارکن کو تحفظ فراہم کرتی ہے اور خود پولیس کی نظروں میں آ جاتی ہے۔ اس فلم میں ترکی کی تبدیل ہوتی ہوئی جمہوریت کو موضوع بنایا گیا ہے اور یہ تقسیم چوک کے احتجاجی مظاہروں کو بھی۔

ایلکر چاتک کا کہنا تھا کہ ان کی فلم کا مقصد یہ بھی تھا کہ مغربی دنیا کو یہ پتہ چلے کہ مغرب اور مشرق کی جمہوریت میں فرق ہے اور دونوں کی ثقافت میں بھی فرق ہے، ’’آپ مغرب میں بیٹھے ہوئے بہت جلد سوچ لیتے ہیں کہ کسی دوسرے ملک کی پولیس اور حکومت بری ہے لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے، کچھ چیزیں ایسی ہیں، جن کو سمجھنے کے لیے وہاں کی ثقافت کو بھی سمجھنا ہوگا۔‘‘

’دا اسٹوڈنٹ اکیڈمی ایوارڈز‘ کا آغاز سن انیس سو بہتر میں کیا گیا تھا اور ان کا مقصد نئے ٹیلنٹ کو تلاش اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔ مجموعی طور پر پانچ کیٹیگریز میں سونے، چاندی اور کانسی کے تمغے دیے گئے ہیں جبکہ اس سلسلے میں تقریب کا انعقاد بیورلی ہلز میں جمعرات کو کیا گیا۔