1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسپین میں گھریلو تشدد سے بچاؤ کے اقدامات

27 جنوری 2010

اسپین کا شمار ان یورپی ملکوں میں ہوتا ہے جہاں گھریلو تشدد کے واقعات نسبتا زیادہ ہوتے ہیں۔ تشدد کی شکار ماریہ نامی ایک خاتون کا کہنا کہ اس کے سابق خاوند نے اُس پر کئی برسوں تک تشدد کیا اور اب بھی وہ اس شخص سے خوف زدہ ہے

https://p.dw.com/p/LiJz
تصویر: DW / picture-alliance / Godong

گھریلو تشدد کی ستائی ہوئی خواتین کے لئے میڈرڈ میں قائم ایک مرکز پر بات چیت کرتے ہوئے ماریہ نے کہا کہ اپنے سابق خاوند کے ساتھ اس نے جو وقت گزرا وہ اذیت کے سوا کچھ نہیں تھا۔

' آخری بار جب میں اپنے خاوند کے ساتھ تھی تو میں عملی طور پر ایک کمرے میں بند تھی۔ نہ میں کھانا کھا سکتی تھی اور نہ آزادانہ طور رہ سکتی تھی۔'

پچاس سالہ ماریہ اس مرکز میں اٹھارہ ماہ سےاپنی بیٹی کے ساتھ رہ رہی ہے لیکن وہ اپنے سابق خاوند سے اس حد تک خوفزدہ ہے کہ اب بھی اپنے ساتھ ایمرجنسی فون رکھتی ہے تاکہ خطرہ ہونے کی صورت میں وہ فوری طور پر مدد حاصل کر سکے۔ ماریہ کے سابق خاوند کو اس کے پاس جانے کی اجازت نہیں ہے۔

Symbolbild Gewalt gegen Frauen
اسپین میں پِدرسری ثقافت کے اثرات بہت نمایاں ہیںتصویر: picture-alliance / Lehtikuva

اسپین کی اشتراکی حکومت نے عورتوں پرگھریلوتشدد کے خلاف کئی اقدامات کئے ہیں اور ایمرجنسی فون کا نظام ان ہی میں سے ایک ہے۔ اس نظام کے تحت گھریلو تشدد کی شکار کوئی بھی خاتون ایک مخصوص ایمرجنسی نمبر پرفون کر کے مدد طلب کر سکتی ہے۔ اسپین کی حکومت کو امید ہے یورپی یونین کے دوسرے ممالک خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کو روکنے کے لئے اسپینی تجربے سے فائدہ اٹھائیں گے۔

اسپین نے 2005ء میں ایک قانون نافذ کیا تھا جس کے تحت گھریلو تشدد کی شکار خواتین کے لئے خصوصی عدالتیں اوران کےعلاج کے لئے مختلف مراکزقائم کئے گئے۔ یہ یورپ میں اپنی نوعیت کا پہلا قانون ہے۔ تین سال بعد ایک اور قانون کے ذریعے حکومت نے ایسے مردوں کے لئے الیکڑانک ٹیگ باندھنا لازمی قرار دے دیا، جن کی سابق خاتون ساتھیوں نے ان کے خلاف شکایت کی ہو اور ان سے تحفظ کی درخواست دی ہو۔ اس ٹیگ کا مقصد ایسے مردوں کی مختلف جگہوں پر آمدورفت کا ریکارڈ رکھنا ہے۔ مردوں کی جارحیت کو کم کرنے کے لئے حکومت نے ایک ایسے نمبر کا اجراء بھی کیا ہے کہ جس کے ذریعے وہ صلاح کار یا نفسیاتی امور کو ماہرسے بات کر سیکیں۔

اس حکومتی مہم کی بدولت اسپین میں اپنے سابق مرد ساتھیوں کے ہاتھوں قتل ہونے والی خواتین کی تعداد 2008ء میں 78 سے کم ہوکر پچھلے سال 55 ہوگئی۔ سابق مرد ساتھیوں کے ہاتھوں خواتین کے قتل کی یہ شرح 2002 ء سے لے کر اب تک سب سے کم ہے۔

اسپین میں پِدرسری ثقافت کے اثرات بہت نمایاں ہیں، جہاں مرد اپنے آپ کو برتر سمھجتے ہیں۔ 2006 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق تقریبا15 لاکھ خواتین اپنی زندگی کی کسی نہ کسی حصے میں گھریلو تشدد کا شکار رہی ہیں۔

Spanien Regierung Ministerin für Gleichberechtigung Bibiana Aido
اسپین کی وزیر برائے مساوات Bibiana Aidoتصویر: picture-alliance/ dpa

اسپین کی وزیر برائے مساوات Bibiana Aido نے کہا ہے کہ ان کا ملک یورپ کی سطح پرایک ایسا ادارہ قائم کرنے کا خواہاں ہے جہاں گھریلو تشدد کے حوالے سے تمام معلومات جمع کی جائیں۔

اس سال آٹھ اور نو مارچ کو یورپی یونین کے رکن ممالک کے سماجی امور کے وزراء کا ایک اجلاس ہوگا۔ Bibiana Aido اپنی تجاویزاس اجلاس میں پیش کریں گی۔

ان تجاویز میں گھریلو تشدد کی شکار خواتین کے تحفظ کے لئے ایک نظام کا منصوبہ اور متاثرہ خواتین کے لئے ایک ہی یورپی ایمرجنسی نمبرکا اجراء شامل ہے۔

رپورٹ: عبدالستار

ادارت: افسر اعوان