1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’اسکاٹ لینڈ میں افرادی قوت کے طور پر تارکین وطن کی ضرورت‘

شمشیر حیدر
6 فروری 2017

اسکاٹ لینڈ کی پارلیمانی کمیٹی کا کہنا ہے کہ ملک میں افرادی قوت کی کمی ختم کرنے کا انحصار تارکین وطن کی آمد پر ہے، اسی لیے اسکاٹش عوام کو بریگزٹ معاہدے میں مہاجرین کی آبادکاری سے متعلق ایک الگ معاہدہ کرنا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/2X21U
Deutschland Flüchtlinge Fortbildung
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Killig

اس پارلیمانی کمیٹی نے مہاجرین کے باعث ملک کی معیشت پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینے کے بعد اسکاٹش رہنما نکولا سٹرجن کے موقف کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ سٹرجن اور لندن حکومت کے مابین یورپی یونین سے اخراج کے بعد کے برطانوی خد و خال کے بارے میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔

دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں 

مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی اسکاٹش قانون ساز اسمبلی کے ارکان پر مشتمل اس کمیٹی کا کہنا ہے کہ ریاست کی کم ہوتی ہوئی آبادی ایک بڑا مسئلہ ہے اور حالیہ برسوں کے دوران یورپی یونین سے آ کر اسکاٹ لینڈ میں آباد ہونے والے نوجوان غیر ملکیوں کی وجہ سے ریاستی معیشت کی صورت حال بہتری کی جانب گامزن تھی۔

یورپی یونین سے آنے والے تارکین وطن کے ملکی معیشت پر مثبت اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے پارلیمانی کمیٹی کا کہنا تھا، ’’کمیٹی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ بریگزٹ کے باعث ملک میں آباد یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی تارکین وطن کی واپسی کا خطرہ بھی ہے اور مستقبل میں اسکاٹ لینڈ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں کمی کا اندیشہ بھی ہے۔ ان امور کے پیش نظر اسکاٹش حکومت کو ریاست میں مہاجرین سے متعلق آئندہ پالیسی کے بارے میں تمام پہلوؤں کا جائزہ لینا چاہیے اور اس سلسلے میں برطانوی حکومت اور متعلقہ اداروں سے بات چیت کی جانا چاہیے۔‘‘

اسکاٹ لینڈ برطانیہ کی چار ریاستوں میں سے ایک ہے۔ گزشتہ برس یورپی یونین سے اخراج یا بریگزیٹ ریفرنڈم کے دوران مجموعی طور پر برطانوی عوام نے تو یونین سے علیحدہ ہونے کے حق میں ووٹ ڈالے تھے تاہم اسکاٹ لینڈ کے عوام کی اکثریت نے یونین میں شامل رہنے کی حمایت میں ووٹ ڈالے تھے۔ اسکاٹ لینڈ میں برسراقتدار جماعت اسکاٹش نیشنل پارٹی نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو ریاست کی برطانیہ سے علیحدگی کے لیے ایک نیا ریفرنڈم کرایا جائے گا۔ 2014ء میں اسی موضوع پر کرائے جانے والے ریفرنڈم میں اسکاٹش عوام نے برطانیہ کا حصہ بنے رہنے کی حمایت کی تھی۔

اسکاٹش حکومت کا کہنا ہے کہ ان کی ریاست کی صورت حال برطانیہ کی دیگر ریاستوں کی نسبت کافی مختلف ہے، اس لیے یونین سے اخراج کے بعد ان کی ریاست کو مہاجرین کے حوالے سے الگ پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے کے مطابق ان کی حکومت کی ترجیح یہ ہے کہ یورپی یونین سے اخراج کے بعد مشترکہ یورپی منڈی کی رکنیت بھی ختم کر دی جائے اور تارکین وطن کی آمد بھی محدود کی جائے۔

جرمنی میں پناہ کی تمام درخواستوں پر فیصلے چند ماہ کے اندر

مہاجرین کے ایک لاکھ رشتہ داروں کے لیے جرمنی کے رہائشی ویزے

مہاجرین کے لیے ملازمتیں