1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اعلی شخصیات کو طالبان کی دھمکی، شرعی عدالت میں حاضری دو

فرید اللہ خان ، پشاور25 جنوری 2009

طالبان نے 45 سیاسی ،سماجی،اعلی سرکاری افسران اور پارلیمنٹ کے ممبران کی فہرست جاری کرتے ہوے انہیں دھمکی دی ہے کہ اگر یہ لوگ طالبان کی شرعی عدالت میں وضاحت کےلئے حاضر نہ ہوئے تو انکے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

https://p.dw.com/p/Gg4G
طالبان کی طرف سے جاری کئے جانی والے اس تفصیل کے بعد سوات بھر اور بالخصوص تحصیل کبل اور مٹہ کے عوام میں خوف اور تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ۔تصویر: AP

صوبہ سرحد کے ضلع سوات میں سیکورٹی فورسسز کی کارروائی میں طالبان کے آٹھ ساتھیوں کی ہلاکت کے بعد طالبان شوریٰ نے صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے 45 سیاست دانوں کو دھمکی دی ہے کہ اگر وہ اپنی صفائی پیش کرنے کے لئے طالبان عدالتوں میں حاضر نہ ہوسکے تو انہیں کاروائی کا نشانہ بنایا جائے گا۔

اس فہرست میں صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے عوامی نیشنل پارٹی ،پاکستان پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ (ق) پیپلز پارٹی شیر پاﺅ گروپ اور دینی سیاسی جماعت جمیعت علماءاسلام فضل الرحمان گروپ سے وابستہ سیاست دانوں کے نام شامل ہیں جبکہ بعض منتخب ناظمین ،نائب ناظمین ،قومی اور صوبائی اسمبلی کے سابق ممبران بھی شامل ہیں۔

طالبان کی طرف سے جاری کئے جانی والے اس تفصیل کے بعد سوات بھر اور بالخصوص تحصیل کبل اور مٹہ کے عوام میں خوف اور تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ سیکورٹی فورسسز نے ایک طرف بم دھماکوں سے بچ جانے والے سکولوں کا انتظام سنبھال لیا ہے جبکہ دوسری جانب تحصیل کبل کے مختلف علاقوں میں طالبان کے ٹھکانوں پر بھاری توپ خانے پر گولہ باری کی ہے ڈھیری نامی علاقے سے 8 نعشیں ملی ہیں جس کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ یہ طالبان کے ساتھی تھے جو سیکورٹی فورسسز کے ساتھ جھرپ میں ہلاک ہوئے ہیں۔

طالبان نے گزشتہ ڈیڑھ سال میں سوات بھر کے سیاست دانوں اور ان کے قریبی رشتہ داروں کو نشانہ بنایا ہے بالخصوص عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والوں کو نشانہ بناتے ہوئے ان کے رشتہ دوروں کو قتل کیاگیا جبکہ انکی املاک کو بھی تباہ کیا گیا۔ اسی طرح حال ہی میں سیکورٹی فورسسز نے سوات میں تعلیمی اداروں کی سیکورٹی کی زمہ داری قبول کی ہے سوات میں گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران 182سے زیادہ سکولوں کو دھماکہ خیز مواد سے تباہ کیا گیا ہے۔

ادھر عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفند یار ولی خان نے طالبان کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اسلام اور کفر کی جنگ نہیں بلکہ دہشت گردی ہے ورنہ کون سے مذہب میں مردے کی نعش نکال کر اسے لٹکانا اور بے حرمتی کرنے کی اجازت ہے، کس مذہب میں مذہبی رسومات اداکرنے والوں کو قتل کرنے کی اجازت ہے، انہوں نے کہا کہ آج مسلمان مسجد میں بھی محفوظ نہیں یہ کھلی دہشت گردی ہے لیکن ہم ان لوگوں سے بھی مذاکرات اور بات کرنے کے لئے تیار ہیں جنہوں نے مجھ پر خودکش حملہ کروایا لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ یہ لوگ اسلحہ رکھ کر دہشت گردی ختم کرنے کا علان کریں۔

اسفند یارولی خان کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان اور بھارت کے عوام کو دہشت گردی کا سامنا ہے ۔ تینوں ممالک میں امن کا قیام ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہے یہ امن افغانستان کے بغیر پاکستان میں قائم نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح پرامن پاکستان کے بغیر ہندوستان میں امن خواب دیکھنے والے غلط فہمی کا شکار ہیں ۔

سوات طالبان شوریٰ کی جانب سے جاری کردہ فہرست میں جن سیاسی شخصیات اور سرکاری اہلکاروں کے نام شامل ہیں ان میں عوامی نیسشل پارٹی کے سابق صدر محمد افضل خان لالا،سابق وزیر امیر مقام،ضلعی ناظم علی جمال ناصر ،سابق وفاقی وزیر شجاعت علی خان،واجد علی ایم پی اے ویسران وبرادران ،صوبائی وزیر ایوب اشاڑی ،رکن اسمبلی ڈاکٹر شمشیر علی قمبوس خان خوازہ خیلہ ،نثار خان ،خورشید ،عبدالجبار خان ناظم مٹہ،طاہر خان اشاڑی ،رکن اسمبلی شیر شاہ خان پی پی پی ،سابق ڈی ایس پی خدابخش قمبر ،بخت جمال،ظفر علی شکردرہ ،سابق رکن اسمبلی عرفان اللہ ،باچا رحمان ،الیاس منجہ ،سید بادشاہ ،احمد خان ،عبدالقہار شین، بخت جمال ،سید افضل خان ،فریدون خان ،واحد زمان سورے شریف ،سیف اللہ ناظم توتو نانے بانڈے ،جمشید ناظم ،جعفر خان کالاکلے ،صاحبزادہ ہزارہ ،شیر محمد خان،عدالت خان ،مظفر الملک کاکی خان ،تیمور خان ،سیف اللہ خان،نواب خان، وقار خان ، طاہر اشاڑی ڈاکٹر حیدر علی ایم اے شیر افضل خان کپتان ،بخت جمال ،ہارون الرشید ،کرنل منبر خان ،میاں گل باچا ،ملک احمد خان ٹال اور دیگر شامل ہیں۔

طالبان کی جانب سے ان کے سربراہ مولانا فضل اللہ کی جانب سے اعلان کردہ اس تفصیل کے بعد سوات کے عوام ایک مرتبہ پھر خوف میں مبتلا ہوگئے ہیں اور نقل مکانی کے سلسلے میں تیزی آنے لگی ہے۔