1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افریقی ملک کینیا میں مخلوط حکومت سازی

17 اپریل 2008

کینیا میں حکومت اور آپوزیشن کے درمیان اِس سال فروی کےمہینے میں ہونی والی مفاہمت کے بعد مخلوط حکومت سازی کا عما مکمل ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/DlOj
کینیا کے صدر موائی کی باکی (درمیان میں) اور آپوزیشن راہ نما رائلہ اوڈنگا (بائیں جانب)
کینیا کے صدر موائی کی باکی (درمیان میں) اور آپوزیشن راہ نما رائلہ اوڈنگا (بائیں جانب)تصویر: AP

کینیا میں صدر موائی کیباکی اور آ پوزیشن راہ نما رائیلہ اوڈنگا کےدرمیان شراکت اقتدار کےمعاملات طے پانے کے بعد پہلی بار کینیا میں وزایر اعظم کا عہدہ قائم ہوگیا ہے۔ آپوزیشن لیڈر رائیلہ اوڈنگا نے اس منصب کا حلف اٹھا لیا ہے۔ ایک نائب صدر کےعلاوہ دو نائب وزیر اعظم بھی شامل ہیں۔

اوڈنگا کی وزارت عظمیٰ کے سائے تلے قائم ہونےوالی مخلوط حکومت میں چالیس وزراء شامل ہیں۔اِن وزرا کے ساتھ باون نائب وزراء بھی موجود ہیں۔بانوے افراد پر مشتمل کابینہ کینیا کی تارخ کی سب سے بڑی کابینہ قرار دی گئی ہے۔وزیر اعظم اوڈنگا کا کہنا ہے کہ ہر ایک کے مفاد کا خیال رکھنے کی قیمت اتنی بڑی کابینہ کی صورت میں ادا کی گئی ہے۔

وزراء کی اِس بڑی فوج کے بارے میں ماہرین اورعام لوگ پریشان ہیں کہ کینیا کی کمزور معاشیات پر اتنےوزراء کا بوجھ کیوں ڈالا گیا ہے۔

یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ صدر موائی کیباکی کے سخت ترین مخالف رائیلہ او ڈنگا نے جو حلف اٹھایا ہے اُس میں اُنہوں نے اقرار کیا ہے کہ وہ صدر کینیا کےوفادار رہیں گے۔ اِسی لیئے کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی بات حتمی نہیں۔سن دو ہزار ایک کےحلیف، بدترین مخالفت کےبعد ،اب ایک میز پر آن بیٹھے ہیں۔ سن دو ہزار ایک میں بھی اختلاف کی وجہ اِسی منصب یعنی وزارت عظمیٰ پر،رائلہ اڈنگا کو فائز نہ کرنا تھا۔

لوگوں کے ذہنوں میں اب بھی یہ بات ہے کہ سینکڑوں افراد کی ہلاکتوں کے بعد دونوں سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان اختلافات کی جو خلیج موجود ہے کیا وہ شراکت اقتدار کے معاملات طے پا جانے کے بعد بھر جائے گی۔ ایسا بھی سوچا جا رہا ہے کہ رائلہ اوڈنگا اورموائی کیباکی کےدرمیان مخلوط حکومت سازی ریت کا محل ہے جو اگلے دنوں میں چیلنجوں اور دباؤ کا بوجھ نہیں سہار سکے گی۔

نئی مخلُوط حکومت کو سب سے بڑےچیلنج امن و امان کی خراب صورت حال کو بہتر کرنا ہے۔ اِس کے علاوہ ملک کے اندر پھیلی کرپشن ہے، جو ہر سطح پر موجود ہے، جس کو ختم کرنےکا اعلان کر کے موائی کیباکی پہلی مدت کے لیئے صدر منتخب ہوئے تھے۔

امن و امان کی بگڑتی صورت حال کا اندازہ دارالحکومت نیروبی میں آج بھی ایک شخص کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونےوالی بے چینی سے لگایا جا سکتاہے حالانکہ اِس ہلاکت کا کابینہ سازی سےکوئی تعلُق نہیں ہے۔

رائلہ اوڈنگا اورموائی کیباکی کے درمیان گزشتہ سال کے صدارتی الیکشن کے بعد نتائج متنازعہ ہونے کے بعد کینیا کے طول و عرض میں خونی ہنگامے پھوٹنے سے ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ دونوں کے درمیان اِس سال فروری کےمہینے میں ہونی والی مفاہمت کےعمل میں اقوام متحدہ کےسیکریٹری جنرل کوفی عنان کی کوششیں لائق تحسین ہیں۔ حکومت سازی کی تکمیل پر اپنے بیان میں کوفی عنان نےکہا ہے کہ ابنہیں توقع ہے کہ نئی حکومتی ٹیم پوری لگن اورجذبے کے ساتھ ملکی ترقی کے سلسلے کو آگے بڑھائے گی۔