1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افریقی پناہ گزین اور اسرائیلی حکومت کی پریشانی

شہاب احمد صدیقی11 اپریل 2009

اسرائیلی حکومت میں افریقی پناہ گزینوں کی آمد پر بدحواسی پاسی جاتی ہے لیکن وہاں ایسی بہت سی تنظیمیں وجود میں آچکی ہیں جو اس مسئلے پر توّجہ دے رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک تنظیم اسرائیل کے نوجوان طلباء نے قائم کی ہے۔

https://p.dw.com/p/HV1k
اسرائیل آنے والے زیادہ تر پناہ گزینوں کا تعلق افریقہ سے ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

تنظیم سے منسلک ایک طالبِ علم کا کہنا ہے کہ تل ابیب کے بازار میں جمعے کے روز ہمیشہ ہی کھانے پینے کی بہت سی اشیاء پھینک دی جاتی ہیں لیکن یہاں سے محض پانچ منٹ کے فاصلے پر ایک بازار میں ہزاروں پناہ گزین رہتے ہیں جن کے پاس سر چھپانے کی کوئی جگہ نہیں اور جنہیں کھانے پینے کو بھی ٹھیک سے مئیسر نہیں اس لیے ہم نے بچ جانے والی اشیائے خورد و نوش کو جمع کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔

تحریک میں شامل طلباء ہر جمعے کو یہاں بازار میں جمع ہوتے ہیں۔ وہ بہت بڑے بڑے کریٹ اٹھا کر سامن جمع کرکے لے جاتے ہیں۔ ان میں ٹماٹر، سلاد، تربوز، کیلے اور روٹیاں وغیرہ بھری ہوتی ہیں۔ یہ تمام چیزیں پناہ گزینوں میں تقسیم کردی جاتی ہیں۔

اب طلباء کی اس تحریک میں رضاکارانہ طور پر دوسرے لوگ بھی حصّہ لے رہے ہیں۔

اس وقت اسرائیل میں سترہ ہزار غیر ملکی افراد پناہ کی تلاش میں ہیں۔ وہ جنگ، خانہ جنگی، تعاقب اور معاشی مشکلات کے ہاتھوں مجبور ہوکریہاں پہنچے ہیں۔ ان میں اکثر کا تعلق افریقی ممالک سے ہے۔

ایسا ہی ایک شخص سمون ہے اور اس کے گھرانے نے خرطوم کے راستے مصر کی راہِ فرار اختیار کی لیکن وہاں بھی کچھ برسوں کے بعد اپنے عیسائی عقیدے کی وجہ سے وہ ناپسندیدہ سمجھے جانے لگے۔ پھر وہ ایجنٹوں کو بھاری رقم دے کر اسرائیلی سرحد عبور کرتے ہوئے تل ابیب پہنچے جہاں انہیں امید ہے کہ ان کے مسائل کو بہتر طور پر سمجھا جاسکے گا۔

تل ابیب کے سماجی بہبود کے دفتر کے سربراہ کا کہنا ہے کہ یہودیوں کی تاریخ کے لحاظ سے انہیں پناہ گزینوں کی مشکلات کا بخوبی احساس ہے لیکن مصر میں تیس لاکھ افریقی پناہ گزین موجود ہیں اور اگر چند پناہ گزینوں کو اسرائیل میں قیام اور ملازمت کی اجازت دی جاتی ہے تو دوسرے پناہ گیزن بھی یہاں کا رخ کرنا شروع کردیں گے۔