1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان عسکریت پسندوں سے ہوشیار رہیں، پوٹن کا انتباہ

عاطف توقیر16 اکتوبر 2015

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے وسطی ایشیائی ریاستوں کے رہنماؤں کو خبردار کیا ہے کہ وہ افغانستان سے عسکریت پسندوں کے ملک میں داخلے سے ہوشیار رہیں۔

https://p.dw.com/p/1GpIr
Putin Portrait Symbolbild NGO-Agenten-Gesetz Russland
تصویر: AFP/Getty Images/A. Nikolsky

روسی صدر کی جانب سے وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے یہ خبرداری پیغام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب امریکی صدر باراک اوباما نے افغانستان میں تعینات قریب دس ہزار فوجیوں کے انخلا کے منصوبے میں تبدیلی لاتے ہوئے ابھی یہ تعداد برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ منصوبے کے تحت رواں برس کے اختتام پر افغانستان میں مقیم امریکی فوجیوں کی تعداد کو نو ہزار آٹھ سو سے کم کر کے ساڑھے پانچ ہزار تک لانا تھا، تاہم گزشتہ روز صدر اوباما نے کہا کہ ابھی افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد کم نہیں کی جائے گی اور وہ انسداد دہشت گردی اور افغان فورسز کی تربیت و معاونت کا عمل جاری رکھیں گے۔

قزاقستان میں وسطی ایشیائی ممالک کے رہنماؤں سے خطاب میں روسی صدر پوٹن نے کہا کہ افغانستان کی صورت حال ’انتہائی کشیدہ کے قریب‘ ہے۔ انہوں نے وسطی ایشیائی ممالک کے رہنماؤں سے کہا کہ اس سلسلے میں کسی ممکنہ حملے کو ناکام بنانے کے لیے تیار رہا جائے اور مل کر کام کیا جائے۔

Syrien - Russische Soldaten unterstützen Assad
روس شام میں بھی عسکری کارروائیوں میں مصروف ہےتصویر: Reuters/Rurtr

’’ہر طرح کے دہشت گرد مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں اور ان کے عزائم ڈھکے چھپے نہیں کہ وہ پھیلنا چاہتے ہیں۔‘

پوٹن کا یہ خطاب ٹی وی چینلز پر بھی نشر کیا گیا، ’’ان کے اہداف میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ وسطی ایشیائی خطے میں پھیل جائیں۔ اس لیے یہ اہم ہے کہ ہم اس صورت حال پر بھرپور ردعمل کے لیے تیار رہیں۔‘

افغانستان کی سرحد ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان سے ملتی ہے اور انہیں ممالک کو روس میں افغانستان سے منشیات کی اسمگلنگ کے راستوں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

روسی صدر نے اپنے خطاب میں ایک بار پھر دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے خلاف روسی عسکری کارروائیوں کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے روسی شہری جو شام میں اس دہشت گرد تنظیم کے ساتھ مل کر کارروائیوں میں مصروف ہیں، انہیں یہ موقع نہیں دیا جائے گا کہ وہ وہاں تجربہ حاصل کریں اور اپنے وطن واپس لوٹ کر اسے استعمال کریں۔

روس نے گزشتہ کئی روس سے شام میں اپنی فضائی کارروائیوں کا آغاز کر رکھا ہے اور روسی لڑاکا طیارے شامی فورسز کو باغیوں کے خلاف پیش قدمی میں فضائی مدد فراہم کر رہے ہیں۔