1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: فرانسیسی صحافیوں کے اغواء کو چار سو دن ہو گئے

3 فروری 2011

افغانستان میں طالبان کی طرف سے اغوا کیے گئے دو فرانسیسی صحافیوں کو عسکریت پسندوں کے قبضے میں 400 دن ہو گئے ہیں۔ ان صحافیوں کو دسمبر 2009ء کے آخر میں میں کابل سے شمال مشرق کی طرف ایک علاقے سے اغوا کیا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/109kb
تصویر: AP

تقریباﹰ 13 ماہ قبل فرانسیسی ٹیلی وژن نیٹ ورک FR3 کے لیے کام کرنے والے ان دونوں صحافیوں کو افغانستان میں ان کے تین مقامی ساتھیوں کے ہمراہ طالبان باغیوں نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔

افغانستان کے ایک پہاڑی علاقے میں اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دیتے ہوئے ان یورپی صحافیوں کو اپنے قبضے میں لینے کی القاعدہ اور طالبان باغیوں نے فوری تصدیق تو کر دی تھی تاہم بعد میں ان اغوا شدگان کے بارے میں کافی عرصے تک کوئی اطلاعات موصول نہیں ہوئی تھیں۔

Nicolas Sarkozy
فرانس دہشت گردوں کی دھمکیوں کے آگے نہیں جھکے گا، صدر سارکوزیتصویر: AP

اس دوران یہ خدشات بھی ظاہر کیے جاتے رہے تھے کہ شاید ان یرغمالیوں کو ان کے اغوا کاروں نے قتل کر دیا ہو۔ پھر کچھ عرصے بعد ان کی ایک ایسی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی، جس میں انہوں نے پیرس حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ ان کی رہائی کے لیے کوششیں کرے۔

گزشتہ برس 29 دسمبر کو، جب شٹیفان تاپونیئر اور ہیروے گیسکوئیر نامی ان فرانسیسی صحافیوں کے اغوا کو ٹھیک ایک سال ہو گیا تھا، تو فرانس میں ان کے آبائی شہروں بوردو اور نانت میں تمام پبلک دفاتر کے علاوہ پیرس میں مشہور زمانہ ’فتح کی محراب‘ پر بھی ان کی بڑی بڑی تصویریں اور پوسٹر لگائے گئے تھے تاکہ فرانسیسی عوام اور بین الاقوامی برادری ان صحافیوں کو اغوا کو فراموش نہ کریں۔

جہاں تک Stephane Taponier اور Herve Ghesquiere کی رہائی سے متعلق دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے مطالبات کا سوال ہے تو ان کے اغوا کے ایک سال اور چند ہفتے بعد 21 جنوری کوالقاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کے عرب ٹیلی وژن چینل الجزیرہ سے نشر ہونے والے ایک مبینہ آڈیو پیغام میں کہا گیا تھا کہ ان صحافیوں کی رہائی افغانستان سے فرانسیسی فوجی انخلاء سے مشروط ہے اور پیرس حکومت کو اس سلسلے میں اپنی پالیسیوں کی بہت بڑی قیمت چکانا پڑے گی۔

Ein Soldat der ISAF in Nad Alis Front in Helmand
افغانستان میں تعینات فرانسیسی فوجیوں کی تعداد 3800 کے قریب ہےتصویر: DW

اسامہ بن لادن سے منسوب اس حالیہ مطالبے پر پیرس میں فرانسیسی حکومت کا فوری رد عمل یہ تھا کہ فرانس دہشت گردوں کی ان دھمکیوں کے آگے نہیں جھکے گا، افغانستان میں فرانس کی اس کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغان عوام کی مدد کے لیے کی جانے والی کارروائیاں جاری رہیں گی تاہم ساتھ ہی یرغمالی صحافیوں کی رہائی کی کاوشیں بھی جاری رکھی جائیں گی۔

افغانستان میں تعینات فرانسیسی فوجی دستوں کی تعداد 3800 کے قریب بنتی ہے اور شٹیفان تاپونیئر اور ہیروے گیسکوئیر کے اغوا کے چار سو دن پورے ہونے کے موقع پر صورت حال ابھی بھی یہی ہے کہ پیرس حکومت کے بقول ان صحافیوں کی جلد از جلد رہائی اس کی اہم ترین ترجیحات میں شامل ہے مگر طالبان اور القاعدہ کی طرف سے ایسا کوئی بھی اشارہ نہیں دیا جا رہا کہ FR3 کے ان صحافیوں کو مستقبل قریب میں کسی وقت رہا کیا جا سکتا ہے۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں