1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں امریکی کمانڈر کی تبدیلی

رپورٹ: عابد حسین، ادارت: امجد علی13 مئی 2009

امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کی جانب سے افغانستان میں طالبان کی سرکوبی کے لئے تعینات اعلیٰ کمانڈر کی تبدیلی کو بین الا اقوامی فوجی حلقوں میں خاصی حیرانی سے دیکھا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/HpHC
جنرل میک کیئرنین وزیرِ دفاع رابرٹ گیٹس کے ہمراہتصویر: AP

موجودہ جنرلMcKiernan کی جگہ صدر دفتر میں فوج کے جوائنٹ سٹاف کے ڈائریکٹر اور سابق سپیشل ایلیٹ فورسز یا کمانڈوز دستوں کےکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل Stanley McChrystal کو تعینات کرنے کا باضابطہ اعلان سامنے آ چکا ہے۔

Neuer US-Kommandeur in Afghanistan Stanley McChrystal
جنرل میک کرسٹل افغانستان میں امریکی افواج کے اعلیٰ ترین کمانڈر مقرز کر دیے گئے ہیںتصویر: AP


امریکی ریٹائرڈ جرنیلوں کے خیال میں اِس تبدیلی سے جنرل McKiernan کے مجموعی وقار کو دہچکا پہنچنے کا بھی احتمال ہے۔ جنرل McKiernan کو Decorated Soldier یا کئی اعزازات کا حامل فوجی افسر قرار دیا جاتا ہے۔ اُن کی عراق تعیناتی اور پھرجنگی حکمتِ عملی میں کامیابی وسیع پیمانے پر تعریف و توصیف حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ عراقی حکمتِ عملی کے تناظر میں ہی اُس وقت کے صدر بُش اور وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے اُن کی افغانستان تعیناتی کی منظوری دی تھی۔

یہ توقع بھی کی گئی تھی کہ مکیرنن کی عراق سٹریٹجی، ایک بار پھر افغانستان میں کارگر ہوتے ہوئےکامیابی سے ہمکنار ہو گی جو ممکن نہ ہوا اور نتیجتاً وہ اپنے عہدے سے فارغ کر دئے گئے۔ سٹریٹجک ماہرین کے خیال میں میکرنن کی افغانستان کی پیچیدہ صورتِ حال میں حکمتِ عملی جنگی اعتبار سے خاصی حد تک روایتی یا کنونشنل قرار دی جا سکتی ہے۔ وہ مزاحمتی کارروائیوں کے انسداد یا اُس پر روک لگانے میں ناکام رہے اور یہی اُن کو عہدے سے ہٹانے کا باعث بنی۔

Barack Obama in Afganistan
امریکی صدر اوباما افغانستان میں مزید افواج بھیجنے کا اعلان کر چکے ہیںتصویر: AP


جنرل میکرنن کی جگہ نئے لیفٹیننٹ جنرل Stanley McChrystal کے بارے میں یہ خیال پہلے سے پایا جاتا تھا کہ وہ افغانستان تعیناتی کے ممکنہ امیدوار ہو سکتے ہیں۔ امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس ، اپنے صدر اوباما کی نئی افغان حکمتِ عملی کے تناظر میں سٹینلے میک کرسٹل کو نئی توقعات کے ساتھ میدانِ جنگ روانہ کر رہے ہیں۔ وہ سن دو ہزار تین سے آٹھ تک خصوصی فوجی آپریشن کے انچارج رہ چکے ہیں۔ اُن کے خصوصی ایلیٹ فوجی دستوں یا کمانڈوز نے ہی عراقی معزول صدر صدام حسین کو گرفتار کیا تھا۔

عراق کے اندر القائدہ کے لیڈر ابُو موسیٰ زرقاوی کی ہلاکت میں بھی اُن کے کمانڈوز کا ہاتھ سب سے نمایاں تھا۔ جنگی ماہرین کے خیال میں امریکی وزارتِ دفاع کے دانشوروں کی خواہش ہے کہ افغانستان میں بھی صورت حال پر قابو پانے کے لئے خصوصی کمانڈو ایکشن کی ضرورت ہے اور اس انداز کی کارروائیوں سے ہی افغانستان میں حتمی کامیابی ممکن ہو سکتی ہے۔

ماہرین کے خیال میں بڑے ایکشن کی جگہ طالبان کے ممکنہ ٹھکانوں پر سُرعت انگیزچھوٹے دھاوے انتہائی کارگر ثابت ہو سکتے ہیں۔ اِس انداز کے حملوں سے عام شہری آبادی کو ہلاکتوں سے بچانا آسان ہو گا۔ اِن شہری ہلاکتوں کی وجہ سے کابل اور واشنگٹن کے تعلُقات میں سرد مہری پیدا ہو چکی ہے۔ مرکزی اعلیٰ کمانڈر جنرل پیٹرائس کو بھی یہ انداز جنگ پسند ہے۔

سٹینلے میک کرسٹل نے اپنی تعیناتی کے بعد کہا کہ وہ اپنے پیشرو کی طرح اعلیٰ جنگی اقدار کو فروغ دینے کی کوشش کریں گے۔