1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں تشدد ایک نئی انتہا کو چھو سکتا ہے، اقوام متحدہ

عاطف توقیر22 جون 2016

افغانستان میں تعینات اقوام متحدہ کے اعلیٰ ترین عہدیدار کا کہنا ہے کہ افغانستان میں عام شہریوں کی ہلاکتیں ایک نئی انتہا کو چھو سکتی ہیں، تاہم میدان جنگ میں افغان فورسز عسکریت پسندوں کا بھرپور مقابلہ کر رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1JBEP
Afghanistan Polizei in Kabul
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Amid

اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب برائے افغانستان نکولس ہیسم کی جانب سے ایک تازہ تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان سے بین الاقوامی فوج کے جنگی مشن کے خاتمے اور زیادہ تر دستوں کے انخلا کے بعد اس وقت سلامتی کی صورت حال ملی جلی ہے۔

پیر 21 جون کو تاہم افغانستان کے دارالحکومت کابل اور شمالی صوبے بدخشاں میں کیے گئے بم حملوں میں 22 افراد کی ہلاک سے افغانستان میں سلامتی کی بری صورت حال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کے مندوب کے مطابق اب بھی عسکریت پسند طالبان قوقتیں اس قابل نہیں ہیں کہ وہ سکیورٹی فورسز کو مفلوج کر دیں۔

ہیسم نے افغانستان میں پرتشدد واقعات اور عام شہریوں کی ہلاکتوں پر گہرے دکھ اور تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کے مقدس مہینے میں اس طرز کے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

Afghanistan Armee
افغان فوجی کے دستے تمام تر دباؤ کے باوجود عسکریت پسندوں کے خلاف برسرپیکار ہیںتصویر: AP

مئی کے اختتام سے اب تک متعدد حکومتی اور عدالتی عہدیداروں کو خودکش بم حملوں کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ عالمی ادارے کے مندوب کے مطابق رواں برس مئی کے آخر سے اب تک کم از کم دو سو افراد کو یرغمال بھی بنایا گیا ہے۔

افغانستان میں چار برس تک اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب کے طور پر خدمات انجام دینے اور اب اپنے عہدے سے سبک دوش ہونے والے نیکولس ہیسم کے مطابق، ’’خطرہ موجود ہے، میرے خیال میں یہ تنازعہ ایک نئی شکل اختیار کر سکتا ہے اور یہ تشدد اپنی انتہا کو پہنچ سکتا ہے۔‘‘

اپنی اس تجزیاتی رپورٹ میں انہوں نے تاہم افغانستان میں متعدد شعبوں میں ہونے والی مثبت پیش رفت کا ذکر بھی کیا، جن میں عوامی شعبے میں زیادہ سرمائے والے منصوبے اور انفراسٹرکچر میں بہتری جیسے معاملات شامل ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ پیش رفت میں تسلسل افغانستان میں جمہوریت کے تسلسل سے وابستہ ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سن 2001ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ طالبان افغانستان میں اس قدر علاقے پر متحرک ہیں اور خصوصاﹰ جنوبی صوبے ہلمند میں حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہلمند کے متعدد علاقوں کا کنٹرول عملی طور پر طالبان کے پاس ہے، تاہم وہ اب بھی پورے صوبے پر کنڑول حاصل نہیں کر پائے ہیں اور نہ ہی ان کے قبضے میں اہم سرکاری عمارات ہیں۔ اس کے مقابلے میں بھاری جانی نقصان اٹھانے والی افغان فورسز تمام دباؤ کے باوجود اپنی کارکردگی میں مسلسل اضافہ دکھا رہی ہیں۔