1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں تعمیر نو کے مشکل مراحل

31 جنوری 2007

افغانستان کو ویسے تو کئی مسائل درپیش ہیں لیکن بڑا مسئلہ طالبان اور اُن کے حلیف قبائل کا ہے۔ اِن عناصر کے پیدا کردہ حالات کے باعث تعمیرِ نوکے عمل میں دُشواریاں پیش آ رہی ہیں۔ گذشتہ پانچ برسوں سے افغانستان کو ملنے والی بین الاقوامی امداد کے عملی اثرات کوئی زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ اب اِس بات کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ ایسا آخر کیوں ہے۔ نئی دہلی میں موجود Christoph Heinzle کا لکھا تبصرہ

https://p.dw.com/p/DYHp
30 جنوری کو برلن میں افغانستان کانفرنس میں شریک جرمن اور افغان وُزرائے خارجہ شٹائن مائر اور رنگین سپنتا
30 جنوری کو برلن میں افغانستان کانفرنس میں شریک جرمن اور افغان وُزرائے خارجہ شٹائن مائر اور رنگین سپنتاتصویر: AP

اگرچہ افغانستان میں ابھی ایسا نہیں ہے کہ طالبان کابل کی دہلیز تک پہنچ چکے ہوں، نہ ہی یہ کہنا چاہیے کہ افغانستان میں کی جانے والی بین الاقوامی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ حالات کو مزیدخراب ہونے سے بچانے کے لئے اور زیادہ توجہ اور مزید کوششیں درکار ہوں گی۔

طالبان کی حکومت کے خاتمے کے پانچ سال بعد خاص طور پر جنوبی اور مشرقی افغانستان کے عوام میں جو مایوسی اور اضطراب پایا جاتا ہے، اُس سے طالبان اور دیگر انتہا پسند ناجائز طور پر فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ اُن مقامات پر ایک نئے اور بہتر افغانستان کی جھلک مشکل ہی سے دیکھی جا سکتی ہے، جہاں ابھی بین الاقوامی امداد پوری طرح سے نہیں پہنچی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ خامیوں کا جائزہ لیا جائے اور غلطیوں کو درست کیا جائے۔

افغانستان کو خاص طور پر دیہی علاقوں میں تعمیرِ نو کے واضح اقدامات کی ضرورت ہے۔ سڑکوں اور بجلی گھروں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر پائی جانے والی بیروزگاری کو ختم کئے جانے اور زراعت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ منصوبے اوپرسے مسلط نہیں کئے جانے چاہییں بلکہ مقامی سطح پر اتفاقِ رائے سے اور شفاف انداز میں عمل میں لائے جانے چاہییں، تبھی وہ مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔

اِس کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر موجود بدعنوانی کے حخاتمے کی بھی ضرورت ہے، جس میں پولیس کے مجرمانہ ذہن رکھنے والے سپاہی ہی نہیں بلکہ گورنر اور وُزراء تک بھی ملوث ہیں۔ رشوت خور پولیس اور بنیاد پرست ججوں کے ساتھ ایک فعال ریاست وجود میں نہیں لائی جا سکتی۔ ان اور دیگر شعبوں، حتیٰ کہ فوجی شعبے میں بھی دی جانے والی بین الاقوامی امداد سست رفتار بھی تھی اور دی بھی زیادہ سوچے سمجھے بغیر گئی۔

بین الاقوامی محافظ دَستے ISAF کی سرگرمیوں کا دائرہ جنوبی اور مشرقی افغانستان تک بھی پھیلا دینے کا وقت 2002 اور 2003ء میں تھا لیکن یہ فیصلہ کرنے میں دیر ہو گئی۔ اب ISAF کو اِن علاقوں میں لڑائی میں حصہ لینا پڑ رہا ہے۔ جرمنی پر سیاسی اور مالی ہی نہیں فوجی لحاظ سے بھی افغانستان کی ذمہ داری عاید ہوتی ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ زیادہ سنگین بحران کے شکار افغان علاقوں میں بھی جرمنی اپنی پوری ذمہ داری نبھائے۔ ISAF کو اچھے اور برے سپاہیوں میں تقسیم نہیں کیا جا نا چاہیے۔ مشن کامیاب ہوا یا ناکام، نیٹو دفاعی اتحاد اجتماعی طور پر اِس کا ذمہ دار ہو گا، خاص طور پر افغان باشندوں کی نظر میں۔