1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں خواتین اب بھی زیادتی کا شکار: یو این

9 دسمبر 2010

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں بچپن کی شادی اورغیرت کے نام پر قتل جیسی روایتوں پر عمل اور حکام کی جانب سے ان روایتوں کے خاتمے میں ناکامی کی وجہ سے ملک کی لاکھوں خواتین اور لڑکیوں کو اذیت جھیلنی پڑ رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/QUSZ
تصویر: AP

افغانستان میں اقوام متحدہ کی جانب سے معاونت فراہم کرنے والے مشن(UNAMA) نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انتہائی سخت اسلامی نظریات رکھنے والے طالبان کی حکومت کے خاتمے کے دس سال بعد بھی خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔

Frauen in Burkas, eine ohne
طلبان کے دور حکومت میں خواتین کے لئے سخت قوانین بنائے گئے جن پر اب بھی عمل ہو رہا ہےتصویر: AP

طالبان کے دور حکومت میں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے اور گھر سے باہر کام کرنے کی ممانعت کر دی گئی تھی، جبکہ انہیں گھروں سے باہر برقع پہننے پر سختی سے عمل کرنے اور محدود پیمانے پر ہی نقل و حمل کی اجازت تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد اگست 2009 میں افغانستان نے خواتین پرتشدد کے خاتمےکے لئے ایک قانون متعارف کر وایا تھا جس میں خواتین کے خلاف ہونے والےتمام جرائم پر مبنی روایتوں کو روکنےکی بات کی گئی تھی۔ تاہم اس قانون سے نہ صرف بہت سے حکام نا آشنا ہیں بلکہ وہ یا تو اس کو نافذ کروانے میں تعامل کا مظاہرہ کر رہے ہیں یا پھر اس کو نافذ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

BdT Afghanistan Mother's Day Zeremonie
افغانستان میں شادی کے لئے خواتین کی خرید و فروخت کا رواج عام ہےتصویر: AP

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے صرف قانون بنانا یا پھر آئین میں اس کا اندراج ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اس قانون کو مؤثر طور پرنافذ کروانا زیادہ ضروری ہے۔ UNAMA کی ڈائریکٹر برائے انسانی حقوق Georgette Gagnon کا کہنا ہے،" افغان پولیس اور قانون ساز اداروں کو اس قانون کو سمجھنے کے لئے نہ صرف مزید تربیت کی ضرورت ہے بلکہ قومی سطح پر اس قانون کو صحیح طرح سے نافذ کس طرح کیا جائے، اس حوالے سے بھی مدد کی ضرورت ہے۔"

واضح رہے کہ خواتین کے حقوق کے لئے جو قانون نافذ کیا گیا ہے اس کے مطابق شادی کے لئےخواتین کی خرید و فروخت، بچپن میں یا زبردستی کی گئی شادی، خواتین کا تعلیم کے حصول، نوکری کرنے اور صحت کی سہولت تک رسائی روکنے جیسے اقدامات کو جرائم شمار کرتے ہوئے ان کی روک تھام کوضروری قرار دیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ 2010 میں ملک کے 34 میں سے 29 صوبوں میں کئے گئےسروے کے بعد مرتب کی گئی ہے۔

رپورٹ: عنبرین فاطمہ

ادارت:افسر اعون

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید