1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں خواتین: مکمل محرومی سے اولین کامیابیوں تک

مقبول ملک
5 اکتوبر 2016

افغانستان کی مدد کرنے والے ممالک اور تنظیموں کی برسلز میں جاری کانفرنس کے تناظر میں افغان خواتین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مستقبل اور ملکی تعمیر و ترقی میں اپنے لیے زیادہ مؤثر اور فعال کردار کی خواہش مند ہیں۔

https://p.dw.com/p/2Qtr2
Afghanistan UNAMA Symbolbild
افغانستان کی اسّی فیصد خواتین آج بھی ناخواندہ ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/EPA/J. Rezayee

خبریں افغانستان کے بارے میں ہوں تو خواتین کا ذکر اکثر مجرمانہ حملوں، تشدد اور گھریلو بدسلوکی کی شکار شہریوں کے طور پر ہی سننے کو ملتا ہے۔ رہی سہی کسر عزت کے نام پر قتل کے واقعات اور طالبان کی طرف سے عورتوں کو سنائی جانے والی سزائے موت کی سرخیاں پوری کر دیتی ہیں۔

افغانستان کے لیے گزشتہ 15 برسوں سے بین الاقوامی برادری کے جس امدادی پروگرام پر کام جاری ہے، اس کا ایک بڑا مقصد خواتین کی حالت کو بہتر بنانا بھی ہے۔ 2013ء سے تو ہندوکش کی اس ریاست میں ایک ایسا ایکشن پلان بھی موجود ہے، جو صنفی بنیادوں پر سماجی انصاف اور افغان خواتین کے قومی سطح پر کردار میں بہتری کے لیے تیار کیا گیا تھا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ان بڑے بڑے مقاصد میں سے عملی طور پر اب تک حاصل کیا کچھ کیا گیا ہے؟

اولین کامیابیاں

افغانستان میں عوامی شعبے کے ملازمین میں خواتین کا موجودہ تناسب 22 فیصد بنتا ہے۔ کسی بھی خالی آسامی پر انتخاب کے لیے سلیکشن بورڈ میں کوئی نہ کوئی ایسی شخصیت ضرور موجود ہوتی ہے، جو صنفی بنیادوں پر انصاف کو یقینی بنانے کی ذمے دار ہوتی ہے۔2001ء میں اس ملک کے سکیورٹی ڈھانچے میں فرائض انجام دینے والی خواتین کا تناسب محض دو فیصد تھا، جو اب بڑھ کر پانچ فیصد ہو چکا ہے۔

Bildergalerie Kinderarmut Afghanistan
اب افغانستان میں لڑکیوں کے قریب دس ہزار اسکول دوبارہ کام کر رہے ہیںتصویر: Getty Images/Aref Karimi/AFP

اس وقت افغان پولیس میں خواتین اہلکاروں کی تعداد 3300 سے زائد ہے جبکہ ملکی فوج میں، جس میں پہلے کوئی بھی خاتون بھرتی نہیں کی جاتی تھی، اب قریب 1400 خواتین فرائض انجام دے رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ملکی پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں خواتین ارکان کی تعداد بھی 26 فیصد ہے، یعنی پارلیمانی ارکان کی ایک چوتھائی سے زیادہ تعداد خواتین پر مشتمل ہے۔ افغان صوبائی کونسلوں میں خواتین ارکان کا تناسب بھی 33 فیصد ہے اور پہلی بار ایک خاتون تو ایک افغان صوبے کی گورنر بھی ہے۔

کابل حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برسوں کے دوران ملکی خواتین میں زچگی کے دوران اموات کی شرح میں قریب 50 فیصد کی کمی لائی جا چکی ہے۔ تعلیمی شعبے میں خواتین اساتذہ کی شرح بھی 33 فیصد ہے اور پورے ملک میں لڑکیوں کے دس ہزار اسکول بھی کام کر رہے ہیں۔

ڈیڑھ دو عشرے قبل کی پریشان کن صورت حال کے برعکس یہ افغانستان میں خواتین کی بہتر سماجی صورت حال اور صنفی بنیادوں پر انصاف کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے وہ نتائج ہیں، جنہیں افغان معاشرے میں خواتین کے لیے پہلی اجتماعی کامیابی تو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن ان کامیابیوں کو کافی کسی بھی طرح نہیں سمجھا جا سکتا۔

بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں جاری دو روزہ افغانستان ڈونرز کانفرنس کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر اشرف غنی نے یہ اعتراف بھی کیا، ’’افغانستان میں ہر اس خاتون کے مقابلے میں، جسے اس کے حقوق مل جاتے ہیں، دس ایسی دیگر خواتین بھی ہوتی ہیں، جنہیں جبر اور اپنے حقوق کی نفی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہوتا ہے۔‘‘

واشنگٹن میں کئی برسوں تک عالمی بینک کے لیے کام کرتے رہنے والے اشرف غنی خود بھی دراصل ایک ایسی شخصیت ہیں، جنہیں ترقیاتی امور اور پالیسیوں کا بہت تجربہ ہے۔ اشرف غنی نے کہا، ’’صرف چند اعلیٰ حکومتی عہدوں پر خواتین کی تعیناتی کے ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بہت بڑی منزل حاصل کر لی گئی ہے۔ اصل کام تو افغان خواتین کی پوری آبادی کی حالت کو بدلنا ہے، نہ کہ صرف چند ایک خواتین کے حالات زندگی کو۔‘‘

Rula Ghani
افغان خاتون اول رولا غنیتصویر: Esmat Mohib

افغانستان کی طویل جنگ کس نے ہاری؟

افغانستان کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر کوئی یہ پوچھے کہ اس ملک میں عشروں سے جاری جنگ ہارا کون ہے، تو اس کا مختصر سا جواب ہو گا: افغان خواتین۔ خود صدر اشرف غنی کی اہلیہ اور افغان خاتون اول رولا غنی کہتی ہیں کہ افغان خواتین معاشرے میں اپنی حیثیت، وقار اور مستقبل سے محروم ہو چکی ہیں۔ 80 فیصد افغان خواتین لکھ پڑھ نہیں سکتیں اور انہیں بنیادی سماجی سہولیات مثلاﹰ آمد و رفت کے عوامی نظام یا بجلی کی فراہمی تک بھی رسائی حاصل نہیں ہے۔

برسلز میں افغانستان ڈونرز کانفرنس کے موقع پر ملکی اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کا موقف یہ تھا کہ افغانستان میں استحکام اور تعمیر نو کے عمل میں خواتین کی حالت بہتر بنانے پر بھی پوری توجہ دی جائے۔ لندن میں تعلیم حاصل کرنے والی ماہر سیاسیات اور اس وقت صدر اشرف غنی کی مشیر کے فرائض انجام دینے والی ارزلا اشرف نعمت کہتی ہیں، ’’سچ یہ ہے کہ ہمیں ابھی ایک بہت طویل سفر کرنا ہے۔ افغانستان ابھی تک کوئی ایسا ملک بننے سے بہت دور ہے، جہاں خواتین اچھی زندگی گزار سکیں۔‘‘

ارزلا اشرف نعمت نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’ہمیں، افغان خواتین کو، بین الاقوامی برادری کی تائید و حمایت کی ضرورت ہے اور ہم اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں شراکت داری کی خواہش مند ہیں۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں