1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں خواتین کے حقوق سے متعلق متنازعہ قانون

کشور مصطفٰی15 اپریل 2009

افغانستان کی خاتون وکیل ماریہ بشیر نے پارلیمان میں زیربحث ازدواجی زندگی سے متعلق اس متنازعہ قانون کو قطعا ناقابل قبول اورغیراخلاقی قرار دیا ہے جسے عالمی برادری کی جانب سے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

https://p.dw.com/p/HXcG
متنازعہ قانون سے متعلق خواتین کا ایک احتجاجی مظاہرہتصویر: AP

ناقدین کا ماننا ہے کہ ازدواجی زندگی سے متعلق اس قانون کا مقصد شوہرکو بیوی کے ساتھ جبری طور پرجنسی عمل کو قانونی حق دینا ہے۔ اس قانون میں یہ شق بھی شامل ہے کہ بیوی شوہر کے بغیر کسی بھی حالت میں گھر سے باہر قدم نہیں رکھ سکتی۔

کابل حکومت کے بقول یہ قانون افغانستان کی شعیہ اقلیت کے لئے بنایا جانا تھا۔ افغانستان کی خواتین کے امورکی وزیرحسین بانوغضنفر اس قانون کو ملک کے آئین کی خلاف ورزی سمجھتی ہیں۔

’’افغانستان میں آزادیء نسواں کو قانونی طور پرکم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہمارے آئین میں مردوں اور خواتین کے مساوی حقوق کا قانون درج ہے۔ اگر اس متنازعہ قانون کی کوئی شق آئین کے خلاف ہوئی تو اس پرغوروخوض کے بعد اسے ہرحال میں تبدیل کیا جائے گا۔‘‘

Straße in Kabul mit Karsai Bild
افغان صدر کرزئی نے اس قانون پر نظر ثانی کا یقین دلایا تھاتصویر: AP

افغانستان میں مذکورہ قانون پر دراصل دو سال پہلے بحث ہوئی تھی۔ اس وقت شعیہ اقلیت سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمان نے مطالبہ کیا تھا کہ ملک میں مروجہ شہری قوانین میں فقہ جعفریہ کے مذہبی اصولوں کو بھی شامل کیا جائے۔ افغانستان کیونکہ سنی مسلک سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت پر مشتمل ہے اس لئے وہاں ہمیشہ سے دین کی تشریح و توضیح سنی مکتب فکر کے تحت کی جاتی رہی ہے اوروہاں کے شہری قوانین بھی اسے حساب سے وضح کیے گئے۔ دو سال قبل کئے گئے مطالبے پر صدرحامد کرزئی کی موجودہ حکومت نے ایک ماہ قبل قانون دانوں کے ساتھ صلاح ومشورے کے بعد ایک مسودہ قانون تیار کیا جسے پارلیمان میں پیش کیا گیا اوراس بل پر صدرکرزئی نے دستخط کر دیئے۔

افغانستان کی پارلیمان کی ایک شعیہ رکن صفورہ الخانی کے مطابق:

’’پارلیمان نے اس بل کو شعیہ اور سنی دونوں طرف کے مذہبی علماؤں اور سیاستدان کے زیر دباؤ آکر پاس کیا ہے۔‘‘

ماضی میں اس قانون میں دو اہم شقیں شامل تھیں جنہیں اب تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ عورت کسی حال میں شوہر کے بغیر گھر سے نہیں نکل سکتی تھی دوسرے یہ کہ لڑکی کی نکاح کی کم سے کم عمر 9 سال تھی۔

تاہم اس قانون میں چند مثبت تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔ مثلا لڑکی کی نکاح کی کم سے کم عمر16 سال مختص کی گئی ہے اور یہ کہ خواتین تعلیم روزگار یا علاج معالجے کے لئے بغیر شوہر کے بھی باہرجا سکتیں ہیں۔ بہت سے قانون سازوں کا ماننا ہے کہ ترمیم شدہ قوانین افغانستان کے سابق سنی سول لاء کے مقابلے میں کئی چیزوں میں خواتین کے حقوق کے لئے بہت بہتر ہے۔ مثلا سنی شہری قوانین کے تحت محض مردوں کو اپنی بیویوں کو طلاق دینے کا حق ہے جبکہ شعیہ پرسنل لاء کی رو سے اگر شوہر بیوی کا نان ونفقہ پورا نہیں کرتا یا اسکی جذباتی اورجنسی خواہشات کا احترام نہیں کرتا یا چارماہ سے زیادہ عرصے سے بیوی سے جسمانی طورپردوررہے تو بیوی کوحق حاصل ہے کہ وہ کورٹ کے ذریعے خلع لے سکتی ہے۔

تاہم ترمیم شدہ قانون میں یہ شق اب بھی موجود ہے کہ عورت کو شوہر کے انتقال کے بعد اسکی جائیداد پر کوئی حق نہیں اوریہ کہ بیوی شوہر کی جنسی خواہش پورا کرنے کی ہرحال میں پابند ہے۔

خود کابل یونیورسٹی کے شعیہ قانون کے استاد نصراللہ اشٹانکزئی اس قانون سے متفق نہیں ہیں۔’’یہ قانون واضح طور پرمردوں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ اس کی موجودہ شکل خواتین کے لئے مسائل کا باعث بنے گی۔ نیز یہ بین الاقوامی شہری قوانین سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔‘‘

Frauen mit Burkas begleidet
افغانستان کی خواتین نے اس قانون کو مسترد کر دیا ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

کابل میں اقوام متحد کی ایجنسی برائے خواتین نے افغانستان کی متعدد قانون دان عورتوں کے پر زوراحتجاج پراس متنازعہ قانون پرصدر کرزئی کو نظر ثانی کرنے کی تاکید کی۔ ساتھ ہی عالمی برادری کی طرف سے کرزئی حکومت کو اس بارے میں خاصہ زیردباؤ لایا گیا۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے چند روز قبل نیٹو کی سربراہ کانفرنس میں مغربی دفاعی اتحاد کی جانب سے کابل حکومت کواس قانون پر نظر ثانی کا کہنا تھا امریکہ صدر اوباما نے بھی ان کی ہمنوائی کی تھی۔

نیٹو کے اجلاس میں فرانسیسی صدرنکولا سارکوزی اور عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہونےوالے سیکریٹری جنرل ژاپ دے ہوپ شیفر نے بھی مذکورہ قانون کو انسانی اور خواتین کے بین الاقوامی حقوق کی پامالی قرار دیتے ہوئے اسے ناقابل قبول قرار دیا تھا۔

غیر معمولی دباؤ کے شکار افغان صدرحامد کرزئی اور ان کی وزارت قانون نے فوری طور سے اس بل پر نظر ثانی اور اس میں ممکنہ ترامیم کرنے کا یقین دلایا ہے۔