1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں داعش کی کارروائیاں پھیلتی ہوئی، امریکی جنرل

مقبول ملک14 اگست 2015

امریکی فوج کے ایک جنرل کے مطابق افغانستان میں دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ یا داعش کی مسلح کارروائیاں بڑھتی جا رہی ہیں لیکن ابھی تک یہ شدت پسندانہ حملے بظاہر غیر مربوط انداز میں کیے جا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GFSt
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Habibi

امریکی دارالحکومت سے موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق افغانستان میں امریکی سربراہی میں کام کرنے والے فوجی مشن کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل ولسن شوفنر نے جمعرات تیرہ اگست کی رات کابل سے ٹیلی فون پر واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ عسکری حوالے سے اسلامک اسٹیٹ کو افغانستان میں اب ایک ایسا گروپ سمجھا جا رہا ہے، جو اپنی ’سرگرمیوں میں پھیلتا‘ جا رہا ہے۔

بریگیڈیئر جنرل ولسن شوفنر کے بقول افغانستان میں امریکی قیادت میں سرگرم فوجی مشن کو یہ رپورٹیں تو مل رہی ہیں کہ دولت اسلامیہ نامی شدت پسند تنظیم اب ہندو کش کی اس ریاست کے مختلف حصوں میں فعال ہے تاہم وہ ابھی تک اپنی کارروائیاں ایک غیر منظم انداز میں جاری رکھے ہوئے ہے۔

ولسن شوفنر نے صحافیوں کو بتایا کہ افغانستان میں امریکا ابھی تک اس قابل نہیں ہے کہ داعش کے خلاف اس طرح کی مربوط عسکری کارروائیاں کر سکے، جیسی کہ اس دہشت گرد گروپ کے خلاف شام اور عراق میں کی جا رہی ہیں۔ تاہم امریکا اس بات کو بھی تسلیم کرتا ہے کہ اس تنظیم کے پاس ’یہ اہلیت موجود ہے کہ وہ مستقبل میں اور بھی زیادہ خطرناک بن کر ابھرے اور واشنگٹن ان خطرات کو بہت سنجیدگی سے لے رہا ہے‘۔

بریگیڈیئر جنرل شوفنر نے کہا، ’’اس وقت یہ عسکریت پسند گروپ اس قابل نہیں کہ ایک ہی وقت میں افغانستان کے ایک سے زائد علاقوں میں کوئی مسلح کارروائیاں کر سکے۔ لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ اس گروپ کی یہ محدود عسکری کارروائیاں ایسی مسلح جھڑپوں کی وجہ بھی بنی ہیں، جن میں سے زیادہ تر میں داعش کے جہادیوں کا مقابلہ افغان طالبان کے جنگجوؤں سے تھا۔‘‘

اے ایف پی کے مطابق اس اعلیٰ امریکی فوجی اہلکار نے صحافیوں کو بتایا، ’’افغانستان میں اس وقت طالبان اور داعش کے مابین جو جھڑپیں دیکھنے میں آ رہی ہیں، ان کی وجہ زیادہ تر یہ ہوتی ہے کہ آئی ایس کے جہادی ان علاقوں میں مسلح مداخلت یا وہاں پر قبضے کی کوششیں کر رہے ہیں، جہاں طالبان نے ایک عرصے سے اپنے قدم جما رکھے ہیں۔‘‘

Bildergalerie IS in Afghanistan
داعش کے جہادی افغان نوجوانوں اور بچوں کو بھی اپنی صفوں میں شامل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/G. Habibi

افغانستان میں دوت اسلامیہ یا آئی ایس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ گزشتہ کئی مہینوں سے نہ صرف ملک کے مشرقی علاقوں میں اپنے قدم جمانے کی کوششیں کر رہی ہے بلکہ وہ اس تگ و دو میں بھی ہے کہ طالبان کی طرف سے لڑنے والے زیادہ سے زیادہ عسکریت پسندوں کو اپنی صفوں میں شامل کر سکے۔

دوسری طرف طالبان اب تک کئی مرتبہ آئی ایس کو خبردار کر چکے ہیں کہ وہ افغانستان میں اپنی مسلح کارروائیوں کا دائرہ وسیع کرنے سے باز رہے اور یہی مخالفت اب تک ان دونوں شدت پسند گروپوں کے مابین رقابت کی وجہ بھی بن چکی ہے۔

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ افغان طالبان کے سربراہ ملا عمر کی ہلاکت کی حالیہ تصدیق کے بعد یہ امکان کافی زیادہ ہو گیا ہے کہ طالبان کے مختلف دھڑوں کی طرف سے ایک دوسرے کی مخالفت کے باعث ان کے داعش کی صفوں میں شامل ہوجانے والے عسکریت پسندوں کی تعداد مستقبل میں اور زیادہ ہو سکتی ہے۔

افغانستان میں امریکی فوجی دستوں کے سربراہ جنرل جان کیمپ بیل آئندہ ہفتوں کے دوران وائٹ ہاؤس کو ہندوکش کی اس ریاست میں سکیورٹی کی تازہ ترین صورت حال پر بریفنگ دینے والے ہیں، جس میں نہ صرف داعش کے بارے میں لگائے گئے امریکی فوجی اندازے بہت اہمیت کے حامل ہوں گے بلکہ یہی بریفنگ افغانستان میں مستقبل کی امریکی فوجی سرگرمیوں کے تعین میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید