1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں مزید فوجیوں کی تعیناتی ممکن، امریکی جنرل

مقبول ملک30 دسمبر 2015

افغانستان میں واشنگٹن اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے دستوں کے اعلیٰ ترین کمانڈر اور امریکی جنرل جان کیمپبیل نے کہا ہے کہ طالبان کی مسلح مزاحمت کے خلاف افغان دستوں کی مدد کے لیے وہاں اضافی امریکی دستوں کی تعیناتی ممکن ہے۔

https://p.dw.com/p/1HVwu
Afghanistan US-General John Campbell
امریکی جنرل جان کیمپبیل نے واشنگٹن سے درخواست کر سکتے ہیں کہ وہ افغانستان میں اپنے اضافی مسلح دستے تعینات کرےتصویر: picture-alliance/Planet Pix via ZUMA Wire

واشنگٹن سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اس امریکی جنرل نے اخبار ’یو ایس اے ٹوڈے‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ امریکی حکومت کو یہ درخواست کر سکتے ہیں کہ وہ افغانستان میں اپنے اضافی مسلح دستے تعینات کرے۔

بدھ تیس دسمبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق افغانستان میں امریکا اور نیٹو کے اس اعلیٰ ترین فوجی کمانڈر نے اس امریکی روزنامے کو بتایا کہ سال رواں کی دوسری ششماہی میں ہندوکش کی اس ریاست میں سلامتی کی صورت حالہ نہ صرف مزید خراب ہوئی ہے بلکہ طالبان عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ بھی ہوا ہے اور افغان فورسز کے ساتھ ان کی جھڑپوں میں اطراف کو پہنچنے والا جانی نقصان بھی واضح طور پر زیادہ ہو گیا ہے۔

جنرل جان کیمپبیل کے مطابق عین ممکن ہے کہ افغانستان میں دو روز بعد شروع ہونے والے سال 2016ء میں مزید امریکی فوجی تعینات کرنا پڑ جائیں۔ اے ایف پی نے لکھا ہے کہ افغانستان میں سلامتی کی اسی مخدوش صورت حال کے پیش نظر امریکی صدر باراک اوباما بھی اپنے اس وعدے سے انحراف کر چکے ہیں افغانستان میں اب تک موجود امریکی دستوں میں سے ایک ہزار کے علاوہ باقی تمام فوجی واپس بلا لیے جائیں گے۔

اس کے علاوہ دو ماہ قبل اکتوبر میں صدر اوباما نے یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ اس وقت افغانستان میں موجود تمام کے تمام 9800 امریکی فوجی اگلے سال (2016ء) کے آخر تک وہیں تعینات رہیں گے۔ اس تناطر میں جنرل کیمپبیل نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ وہ امریکی صدر اوباما سے درخواست کریں گے کہ افغانستان میں ابھی تک موجود امریکا کے قریب 10 ہزار فوجیوں کو جب تک ہو سکے، وہیں تعینات رہنے دیا جائے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ اشارہ بھی دیا کہ وہ باراک اوباما سے یہ درخواست بھی کر سکتے ہیں کہ واشنگٹن افغانستان میں اپنے مزید بھی بھیجے۔

نیٹو اور امریکی دستوں کے اس کمانڈر نے مزید کہا، ’’اگر مجھے یہ یقین نہ رہے کہ ہم افغانستان میں مقامی دستوں کی تربیت، مشاورت اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں ان کی مدد کے اپنے عسکری اہداف اچھی طرح حاصل کر سکتے ہیں، تو میرے لیے یہ لازمی ہو گا کہ میں واشنگٹن میں اعلیٰ قیادت کو بتاؤں کہ ہمیں مزید فوجی درکار ہیں۔‘‘

US- und afghanische Soldaten in Afghanistan
واشنگٹن کے نو ہزار آٹھ سو فوجیوں میں سے قریب نصف تقریباﹰ ایک سال بعد واپس بلا لیے جائیں گےتصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar

امریکی حکومت کے اب تک عسکری فیصلوں کے مطابق اس وقت افغانستان میں موجود واشنگٹن کے نو ہزار آٹھ سو فوجیوں میں سے قریب نصف تقریباﹰ ایک سال بعد واپس بلا لیے جائیں گے اور یکم جنوری 2017ء تک ان کی تعداد کم کر کے 5500 کر دی جائے گی۔

افغانستان میں گزشتہ چند مہینوں کے دوران طالبان باغیوں کی طرف سے ملک کے کئی علاقوں میں بڑی خونریز کارروائیاں کی گئیں اور وہ متعدد علاقوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب بھی ہو گئے تھے، جن میں سے چند ابھی تک ان کے کنٹرول میں ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید