1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں مقامی حکومت

عاطف بلوچ12 مارچ 2009

امریکی صدرباراک اوباما سمیت دیگرمغربی رہنما کھلے طوراس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ افغانستان میں اعتدال پسند طالبان کو مرکزی سیاسی دھارے میں شامل کیا جائے۔

https://p.dw.com/p/HAtH
افغانستان کے حوالے سے امریکی پالیسی میں واضح تبدیلی دیکھی گئی ہےتصویر: AP / DW-Fotomontage

اپنے دورہ افغستان کے دوران جرمن وفاقی وزیر دفاع فرانز جوسف ژنگ نے زوردیا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی پہلی شرط یہ ہو گی کہ وہ پرتشدد کارروائیوں میں کمی لائیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اعتدال پسند طالبان ہیں یا نہیں؟ اور یہ کہ تمام مذاکرات کس نوعیت کے ہوں گے؟

حالیہ دنوں بون میں منعقدہ ''افغانستان میں مقامی سیاست ''کے نام پر ہونے والی ایک کانفرنس کے دوران تھوماس بیرتھ لائن نے کچھ ماہرین سے اسی حوالے سے حقائق جاننے کی کوشش کی۔

Verteidigungsminster Jung in Afghanistan
جرمن وزیر دفاع ایک افغان پولیس اہلکار کے ساتھتصویر: AP

لندن اسکول آف اکنامکس سے منسلک طالبان امور کے ماہر Antonio Giustozzi نے کہا کہ موجودہ دور میں افغانستان میں امریکی اتحادی افواج اور کزرئی حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے والے طالبان ، اُن طالبان کا تسلسل نہیں ہیں جنہوں نے سن انیس سو نوے میں افغانستان کا ایک بڑا حصہ اپنے قبضے میں کررکھا تھا۔ انہوں نے کہا'' طالبان اپنے آپ کو سن نوے کی دہائی کے مقابلے میں نئے طریقے سے پیش کر رہے ہیں اور وہ اپنے آپ کو اب طالبان کے بجائے مجاہدین کہلوانا پسند کرتے ہیں''۔

Antonio نے بحث کرتے ہوئے کہا کہ کئی اوقات طالبان بہت زیادہ حقیقت پسند ہو سکتے ہیں۔انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی مقامی کمانڈر لڑکیوں کا اسکول بند کرنے سے انکار کر دے تو وہ پھر بھی اُس کمانڈر کو طالبان تحریک میں شامل ہونے کی اجازت دیں دیں گے تاہم اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ طالبان رہنماوں کے ساتھ مذاکرات نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں۔

Verteidigungsminister Jung in Kabul
جرمن وزیر دفاع افغانستان میں متعین جرمن فوجیوں سے ملاقات کے دورانتصویر: picture-alliance/ dpa

اسی طرح افغان سکالر Nazif Shahrani جو امریکہ کی انڈیانا یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں نے کہا کہ صرف کچھ وزارتوں کے لئے طالبان باغیوں کو دعوت دینے سے مسلہ کا حل ممکن نہیں ہو سکے گا۔ ان کے مطابق صرف نچلی سطح پر مقامی باشندوں کو اقتدار کی منتقلی سے ہی اس مسلے کا حل ممکن ہو سکتا ہے۔ جبکہ ابھی تک کابل میں ایلیٹ سیاسی ڈھانچہ اعلی سطح سے نچلی سطح کی طرف سفر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا '' مقامی سطح پر لوگ اپنے ہی لوگوں سے منتخب کئے گئے رہنماوں سے خوش ہوں گے۔ وہ انہی لوگوں کو چنیں گے جو ان کے نزدیک متقی اور پرہیز گار مسلمان ہوں گے۔ ۔۔ اور ابھی تک ہم جو عام سوچ رکھتے ہیں کہ جو بھی مغرب سے آکر ہم پر حکمرانی کر رہا ہے وہ اسلامی اقدار کو خیال نہیں کر رہا ہے''۔

Shahrani نے کہا کہ ابھی تک افغانستان میں طالبان کے ساتھ شراکت اقتدار کا کوئی بھی طریقہ کارغیر حقیقی معلوم ہوتا ہے۔ لیکن جنرل ڈیوڈ پیٹراس جیسے رجایئت پسند، نئی امریکی انتظامیہ میں شامل اہلکار اس طریقہ کار پر عمل کرنے کے لئے رضا مند ہوں گے۔