1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں منشیات کی پیداوار میں مسلسل دوسرے سال کمی

4 ستمبر 2009

افغانستان میں منشیات کی پیداوار میں مسلسل دوسرے برس کمی ہوئی ہے لیکن ابھی بھی یہ پیداوار تشویشناک ہے کیونکہ اِس کی تجارت سے ہی طالبان اپنی بغاوت کے لئے سرمایہ حاصل کرتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/JSRH
تصویر: AP

’’افغانستان میں منشیات کی پیداوار میں ایک بار پھر کمی‘‘ یا پھر ’’افیون کی پیداوار پھر گر گئی‘‘، کچھ اِسی طرح کی سُرخیاں لکھنے سے پہلے صحافیوں نے حیرت سے اپنے ہاتھ پر چٹکی لی ہو گی کہ کہیں وہ خواب تو نہیں دیکھ رہے۔ درحقیقت یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ افغانستان میں منشیات کے خاتمے کے لئے کئے جانے والے اقدامات کس حد تک کامیاب جا رہے ہیں؟ ایسا نہ ہوکہ اِس معاملے میں بھی لوگ جشن مناتے رہ جائیں اور بعد میں پتہ چلے کہ حقیقت تو کچھ اور ہی تھی۔

Taliban, Archivbild
منشیات کی پیداوار سے طالبان کو بہت زیادہ مالی فائدہ ہوتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

بیس اگست کو انتخابات کے بعد بھی کچھ اِسی طرح کے پُر مسرت نعرے لگائے گئے تھے۔ نہ صرف افغان صدر بلکہ مغربی دُنیا نے بھی اِن انتخابات کو افغانوں کی فتح اور طالبان کی شکست قرار دیا۔ لیکن اب جبکہ حتمی نتائج بھی سامنے نہیں آئے، انتخابات میں دھاندلی کے سنگین الزامات عائد کئے جا رہے ہیں اور یہ خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ طالبان درحقیقت بڑی تعداد میں رائے دہندگان کو ووٹ ڈالنے سے روکنے میں کامیاب ہوئے۔ چنانچہ منشیات کے سلسلے میں بھی بہتر یہی ہے کہ ابھی سے خوشی کے کوئی نعرے بلند نہ کئے جائیں۔ وہ اِس لئے کہ یہ معاملہ اہم بھی ہے اور خطرناک بھی، خاص طور پر مغربی دُنیا کے لئے۔ جو افیون افغانستان میں تیار ہوتی ہے، وہ ہیروئن کی صورت میں سیدھی یورپ کی سڑکوں پر آن پہنچتی ہے۔

منشیات طالبان کے لئے ایک طرح سے طاقت کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ ایسے میں وہ اپنی مقدس کتاب قرآن میں نشہ آور اَشیاء کی کاشت کی ممانعت کے حوالے سے درج احکامات کی بھی پروا نہیں کرتے۔ منشیات سے حاصل ہونے والی آمدنی سے وہ ہتھیار اور وہ گولہ بارود خریدتے ہیں، جو وہ مغربی فوجی دَستوں پر حملوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ تاہم افغانوں اور نیٹو کی پوست کے پودے تباہ کرتے ہوئے انسدادِ منشیات کی مہم کو آگے بڑھانا ایک غلط حکمتِ عملی تھی۔ اِس طرح اپنے روزگار سے محروم ہو جانے والے غریب کاشتکار یقیناً انتہا پسندوں سے جا ملے ہوں گے۔

اِس کے برعکس موجودہ حکمتِ عملی شاید درست ہے، جس میں کاشتکاروں کو ایک طرف تو سزاؤں کی دھمکی دی جاتی ہے اور دوسری جانب اُنہیں اپنے کھیتوں میں متبادل اجناس یا پھر گلاب وغیرہ اُگانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اب وہ افغان صوبے منشیات سے پاک ہیں، جہاں طالبان کا کنٹرول نہیں ہے۔

ابھی لیکن یہ کہنا بہت قبل از وقت ہے کہ آیا نئے بہتر اعدادوشمار اِسی نئی حکمتِ عملی کا نتیجہ ہیں۔ ہونے کو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آج کل چونکہ عالمی منڈی میں افیون کی قیمتیں کہیں نیچے چلی گئی ہیں، اِس لئے طالبان کا کاروبار متاثر ہو رہا ہو۔ یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ منشیات کا کاروبار کرنے والے بھاری مقدار میں افیون ذخیرہ کر کے بیٹھے ہوئے ہیں تاکہ قیمت اور نیچے نہ چلی جائے۔ ایسے میں افغانستان کے عوام ا ور مغربی دُنیا کو یہ تاثر دینا غلط ہو گا کہ اب افغانستان میں پوست کی بجائے گندم کی فصلیں لہلائیں گی۔ طالبان کو اپنی افیون کی اشد ضرورت ہے اور وہ آمدنی کے اِس ذریعے کو اتنی آسانی سے اور بغیر لڑے ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔

تبصرہ: کائی کیوسٹنر/ امجد علی

ادارت: عدنان اسحاق