1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں پرانے جنگی سرداروں کی نئی سیاسی پارٹی

عاطف بلوچ18 دسمبر 2015

سابق افغان جنگی سرداروں اور ممبران پارلیمنٹ نے ایک نئی پارٹی بنانے کا اعلان کیا ہے، جو اپنے مطالبات منوانے کے لیے کابل حکومت پر دباؤ ڈالے گی۔ یوں گزشتہ چودہ سالوں بعد افغانستان میں پہلی اپوزیشن پارٹی وجود میں آئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1HQ60
Afghanistan Protection and Stability Council in Kabul - Abdul Rasul Sayaf
سن 2001 میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان میں پہلی اپوزیشن پارٹی وجود میں آئی ہےتصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے بتایا ہے کہ افغانستان میں قائم کی جانے والی نئی سیاسی جماعت ’افغانستان پروٹیکشن اینڈ اسٹیبیلیٹی کونسل‘ APSC کی کوشش ہو گی کہ وہ معیشت اور سلامتی سے متعلق حکومتی وعدوں پر عملدرآمد کے لیے کابل حکومت پر دباؤ ڈالے۔

اس نئی پارٹی کے رہنما عبدالرسول سیاف نے اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی سیاسی جماعت کوئی ’حکومت مخالف ادارہ‘ نہیں ہے۔ اس سابق ملیشیا کمانڈر کے بقول پارٹی منشور حکومت سے اہم بنیادی اصلاحات کا مطالبہ کرتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت نے جو وعدے کیے ہیں، ان پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے ان کی پارٹی نگرانی کا کام کرے گی۔

افغان صدر اشرف غنی نے جب گزشتہ برس ملکی صدر کا عہدہ سنبھالا تھا تو انہوں نے عہد کیا تھا کہ ان کی حکومت ملک میں گزشتہ چودہ برسوں سے طالبان کے ساتھ جاری جنگ کا خاتمہ ممکن بنا دے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہندو کش کی اس ریاست کی معیشت کو بہتر بنانے کی بھی بھرپور کوشش کی جائے گی اور عوام کو سستا انصاف مہیا کیا جائے گا۔ تاہم ابھی تک غنی اپنے ان وعدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکے اور اس تناظر میں بہت کم پیشرفت ممکن ہو سکی ہے۔

امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی طرف سے رواں ہفتے ہی ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی، جس میں خبردار کیا گیا تھا کہ سن 2016ء میں افغانستان بھر میں طالبان کے حملوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ افغانستان کے بارے میں مرتب کی گئی اس تجزیاتی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہاں انتہا پسند گروپ داعش کے پنپنے کا خدشہ بھی سر اٹھا رہا ہے۔ امریکی فوجی حکام کی طرف سے تیار کی گئی اس رپورٹ میں افغانستان کو درپیش مختلف مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے ان کے حل بھی تجویز کیے گئے تھے۔

یہ امر اہم ہے کہ افغانستان میں بے روزگاری کی شرح چوبیس فیصد ہے اور بے روزگار افراد میں نوجوانون کی تعداد زیادہ ہے۔ مبصرین کے مطابق یہی نوجوان غربت اور دیگر معاشرتی مسائل کے سبب انتہا پسندی کی طرف راغب ہو سکتے ہیں۔

سن 2001 میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان میں وجود میں آنے والی پہلی اپوزیشن پارٹی APSC کا مطالبہ ہے کہ سب سے پہلے ملک میں انتخابی اصلاحات ممکن بنائی جائیں۔ کابل میں اس پارٹی کی افتتاحی تقریب کے موقع پر عبدالرسول سیاف نے حکومت پر یہ زور بھی دیا کہ حکومت کو طالبان کے خلاف جاری اپنی عسکری مہم میں ’مجاہدین‘ کو بھی شامل کرنا چاہیے۔

Afghanistan Protection and Stability Council in Kabul - Abdul Rasul Sayaf
عبدالرسول سیاف (بائیں سے دوسرے) کے مطابق یہ نئی پارٹی ریاست مخالف ادارہ نہیں ہےتصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar

اسّی کی دہائی میں سابق جنگی سرداروں اور جنگجو کمانڈروں پر مشتمل گروہ ’مجاہدین‘ نے سوویت آرمی کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ بعد ازاں اسی گروہ نے سن 2001 میں افغانستان میں طالبان کے خلاف امریکی کارروائی کی بھی حمایت کی تھی۔ سیاف کا کہنا تھا، ’’بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ مجاہدین حکومت میں صرف طاقت اور اختیارات چاہتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم افغان عوام کے تحفظات کی عکاسی کرتے ہیں۔‘‘

افغان سیاسی تجزیہ نگار جاوید کوہستانی کا البتہ کہنا ہے کہ یہ نئی پارٹی خواتین اور نوجوانوں کا اعتماد حاصل نہیں کر سکے گی کیونکہ ماضی میں انسانی حقوق کی مبینہ پامالیوں اور سخت گیر اسلامی نظریات کے باعث ان کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ پارٹی اصلاحات کا نعرہ لگا رہی ہے لیکن مستقبل میں کچھ نہیں کرے گی، ’’اس پارٹی کے بہت سے ممبران گزشتہ حکومت کا حصہ تھے لیکن انہوں نے کچھ نہیں کیا تھا۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید