1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان چرس کی سپلائی میں بھی سر فہرست

31 مارچ 2010

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ افغانستان افیون کے بعد چرس سپلائی کرنے والے ممالک میں بھی مراکش پر سبقت لیتے ہوئےدنیا میں پہلے نمبر پر آ گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/MjCJ
تصویر: picture-alliance/ dpa

افغانستان میں 24700 سے لے کر 59300 ایکڑرقبے پر بھنگ کاشت ہوتی ہے جس سے سالانہ 1500 سے 3500 ٹن چرس حاصل ہوتی ہے اور اس کی آمدن 39 سے 94 ملین ڈالر تک ہےجو افیون سے حاصل ہونے والی رقم کا 10 سے 20 فیصد ہے۔ بھنگ کے پودوں سے حاصل کی جانے والی رال یا گوند کو چرس کہا جاتاہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے برائے انسداد منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) کی جانب سے بدھ کوویانا میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے 20 صوبوں کے 1634دیہاتوں سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق افیون کی بجائے بھنگ کی کاشت پر ایک تہائی کم اخرجات آتے ہیں۔

Afghanistan Opium wird vernichtet in Kabul
افغانستان میں ہر سال ل لاکھوں ڈالر کی منشیات نذر آتش کی جاتی ہےتصویر: AP

بھنگ سے فی ہیکٹر 3341 امریکی ڈالر یعنی (2490 یورو) جبکہ افیون کی کاشت سے اتنے ہی رقبے سے 2005 امریکی ڈالر یعنی ( 1495 یورو) آمدن ہوتی ہے۔ لیکن کسان ابھی بھی افیون کوپسند کرتے ہیں کیونکہ بھنگ کی فصل کے لئے بہت پانی درکار ہوتا ہے۔ افغانستان کے 34 میں سے 17 صوبوں میں بڑے پیمانے پر بھنگ کی کاشت ہوتی ہے۔

ادارے کی ایگزیکیٹیوڈائریکٹر انٹونیا کوسٹا کے مطابق اگرچہ بعض دیگر ممالک میں بھنگ کی کاشت زیادہ ہوتی ہے لیکن چرس کی تیاری کے حوالے سے افغانستان ان سے آگے ہے۔ اس ادارے کے سروے کے مطابق افغانستان کے کسان ایک ہیکٹر سے 145کلو گرام جبکہ مراکش کے کسان 40 کلو گرام چرس حاصل کرتے ہیں۔

Opium Feld wird vernichtet in Afghanistan
اقوام متحدہ کے مطابق چرس فروخت کرنے کے نتیجے میں عسکریت پسندوں کو اچھا خاصا پیسہ مل رہا ہےتصویر: AP

افغانستان میں منشیات کےاس غیر قانونی کاروبارسے سالانہ 3 بلین ڈالر حاصل ہوتے ہیں۔ یہ کاروبار عسکریت پسندوں اور ایسی گروہوں کے ہاتھ میں ہے جو منشیات سرحد پار پاکستان اور ایران سمگل کرتے ہیں اور اس رقم سے اسلحہ خریدکر واپس اپنے ملک لا تے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہےکہ افیون کی طرح بھنگ بھی زیادہ تر افغانستان کے ان جنوبی علاقوں میں کاشت کی جاتی ہے جو بدستور بدامنی کا شکار ہیں اسی لیےچرس فروخت کرنے کے نتیجے میں عسکریت پسندوں کو اچھا خاصا پیسہ مل رہا ہے جس کی وجہ سے وہ افغان اور غیر ملکی افواج کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

کوسٹا کے مطابق افغانستان میں سیکیورٹی کی صورتحال بہتر بنانے اور ترقیاتی منصوبے شروع کرنے سے وہاں چرس اور ہیروئن کی پیداوار اور سپلائی روکی جا سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ پچھلے سال افغانستان میں 6900 ٹن افیون پیدا ہوئی جو پوری دنیا میں پیدا ہونے والی افیون کا 90 فیصد ہے۔ اس سال مارچ کے آغاز میں افغانستان کی حکومت نے افیون کی کاشت ختم کرنے کی مہم شروع کی تھی اور اس دوران کسانوں کو امداد بھی دی جاتی رہی کہ وہ اپنے کھیتوں میں متبادل فصلیں کاشت کریں۔

رپورٹ : بخت زمان

ادارت : عدنان اسحاق